جیسو ن چیانگ
مرحوم امریکی سینیٹر ولیم تھاڈ کوچرن کے نام سے منسوب کوچرن فیلوشپ پروگرام دنیا بھر کے زرعی پیشہ ور افراد کے لیے امریکہ میں قلیل مدتی تربیت فراہم کرتا ہے۔ فیلوشپ کا مقصد شرکاءکو اپنے آبائی ممالک میں زراعتی نظام میں تعاون کرنے اور امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ کوچرن فیلوشپ پروگرام امریکی محکمہ زراعت عالمی زرعی خدمات کا حصہ ہے۔
جولائی ۲۰۲۴ء میں زرعی کاروبارسے وابستہ ہندوستانی خواتین کاروباری افراد کے ایک گروپ نے ممبئی کے امریکی قونصل خانہ اور امریکی محکمہ زراعت کے مابین شراکت داری میں منعقد اس پروگرام میں حصہ لیا۔ شرکا ءنے فوڈ پروسیسنگ اور پیکیجنگ میں تربیت حاصل کی۔ انہوں نے اوہائیو، ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی میں مختلف قسم کی زرعی مصنوعات اور فوڈ آپریشنز پر مرکوز تبادلہ خیال اور تجرباتی طور پر سیکھنے سے متعلق پروگراموں میں حصہ لیا۔ متنوع سرگرمیوں میں امریکی کاروباری اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ بات چیت، تحقیقی مراکز اور مقامی بازاروں کے دورے اور ماہرین اور سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں شامل تھیں ۔
خواتین کاروباری پیشہ وروں کو بااختیار بناکے، مقامی معیشتوں کو مستحکم کرکے اور پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دے کر جولائی ۲۰۲۴ء کے پروگرام نے ہندوستانی زراعت میں خواتین کے کردار رفتاردینے اور زیادہ مساوی مستقبل کو فروغ دینے میں مدد کی۔ آئیے ان تین ہندوستانی زرعی کاروباری پیشہ وروں کے بارے میں جانتے ہیں جو اس گروپ کا حصہ رہ چکی ہیں۔
الیزابیتھ یارک
پائیداری پر مبنی ایک پہل’سیونگ گرینز ‘ ضمنی طورپر تیار ہوجانے والی اشیا ء خاص طور پر شراب تیارکرنے والوں کے استعمال شدہ دانوں کو قیمتی اجزاء میں تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ شراب بنانے کے لیے عام طور سے جَو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے گرم پانی میں بھگو دیا جاتا ہے تاکہ شراب تیار کرنے کے لیے ضروری شکر حاصل ہو سکے۔ شکر نکالنے کے بعد جو بچ جاتا ہے اسے استعمال شدہ اناج کہا جاتا ہے۔
استعمال شدہ اناج کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے سیونگ گرینز اسے غذائیت سے بھرپور غذائی اجزا ءمیں تبدیل کرتی ہے جس میں اعلیٰ پروٹین سے بھرپور آٹا اور دیگر ماحول دوست مصنوعات شامل ہیں۔ بینگلورو میں واقع کمپنی کی بانی الیزابیتھ یارک کہتی ہیں’’ میرا پسندیدہ قول یہ ہے کہ جب کسی چیز کے استعمال کی ترکیب نظر نہ آئے تب وہ چیز بیکار خیال کی جا سکتی ہے۔‘‘
بینگالورو میں ۷۰ سے زیادہ شراب کی چھوٹی بھٹیاں ہیں۔ سیونگ گرینز کی ویب سائٹ کے مطابق، شہر میں شراب کی ایک اوسط چھوٹی بھٹی روزانہ تقریباً ۲۰ کیلو گرام اناج استعمال کرتی ہے جس میں سے تقریباً ۱۲ ہزار کیلو گرام اناج ممکنہ طور پر روزانہ ضائع ہو جاتا ہے۔
’سیونگ گرینز‘ کا مشن کھانے کی صنعت کے اندر ایک دائرہ نما معیشت کی تشکیل ہے جس میں استعمال شدہ اناج کو قیمتی وسائل کے طور پر دوبارہ استعمال کیا جاتاہے۔ یارک کی ٹیم شراب کی بھٹیوں، کیفے اور دیگر کھانے پینے کے کاروباروں کے ساتھ مل کر مصنوعات تیار کرنے، پائیداری کی تقریباتکی میزبانی کرنے اور یہاں تک کہ استعمال شدہ اشیا ءکو پھر سے تخلیقی استعمال کے لائق بنانے کی اکائی قائم کرنے کے لیے مل کر کام کرتی ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ’سیونگ گرینز‘ اناج کی بربادی کو کم کرتی ہے اور خوراک کی پیداوار اور کھپت کے لیے زیادہ پائیدار اور شعوری نقطہ نظر کو فروغ دیتی ہے۔
جون ۲۰۲۴ء میں ’ سیونگ گرینز‘ اور ’ لو فر اینڈ کمپنی‘ نے بینگالورو میں ’اپ سائیکلڈ پزا پارٹی نائٹ ‘کی میزبانی کی جہاں یارک نے دکھایا کہ کس طرح کم سے کم پروسیسنگ کے ساتھ استعمال شدہ اناج کو غذائی تغذیہ سے بھرپور کھانے کی اشیا ء جیسے بریڈ، کوکیز، بسکٹ، کیک اور گرینولامیں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
کوچرن فیلوشپ پروگرام کے تجربے نے اناج کی بچت کے لیے یارک کے پائیدار نقطہ نظر پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ بتاتی ہیں ’’یہ پروگرام میرے لیے زندگی تبدیل کرنے والا تجربہ رہا ہے۔ کوچرن فیلوشپ نے مجھے نئے طریقوں سے ترقی کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دی اور اناج کی بچت کے ممکنہ اثرات کے بارے میںمیرے نقطہ نظر کووسعت دی۔ وہ مزید کہتی ہیں’’دستی مشق اور نیٹ ورکنگ کے مواقع کے منفرد امتزاج نے اس صنعت کے اندراورباہرکھانےکی بربادی کو حل کرنے کی ہماری اہم صلاحیت کو اجاگر کیا ہے۔‘‘
خواہش مند خواتین کاروباریافراد کے لیے مطابقت پذیری اور کھلے ذہن پر زوردینے کا مشورہ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’خوراک کا نظام تنوع سے بھرا ہوا ہے لیکن اس میں معیار کا فقدان ہے۔چست ماڈل بہت ضروری ہے جو مختلف چیلنجوں اور مواقع کے مطابق ڈھل سکے۔ لچکدار اور جوابدہ ہونے سے آپ کو صنعت کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
ریچی ڈیو
ممبئی کی ایک کمپنی’تولوا فوڈز‘مختلف قسم کے مصالحے اور پکانے کے لیے تیار پیسٹ پیش کرتی ہے۔ خورد و نوش کے علاقائی ہندوستانی نسخوں سے متاثر ہوکر ریچی ڈیو اور ان کی ٹیم براہ راست ہندوستان بھر سے مصالحے منگواتی ہے اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ تازہ ترین اور سب سے زیادہ خوشبودار اجزا ءفراہم کریں۔
ڈیو کا کہنا ہے ’’ خواہ آپ نئے ذائقوں کی متلاشی گھریلو خاتون ہیں یا مستند ہندوستانی پکوان بنانے کا اردہ رکھنے والی ایک پیشہ ور خانساماں ، ’تولوا فوڈز‘ آپ کے کھانا پکانے کے تجربے کو بہتر بنانے کےلیے اجزا ءاور ترغیب فراہم کرتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’ ہماری ٹیگ لائن ’ خالص ہندوستانی ذائقے‘ ہندوستانی کھانے پکانے کے جوہر کو محفوظ رکھنے اور اسے دنیا کے ساتھ مشترک کرنے کےلیے ہماری لگن کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘
کوچرن فیلوشپ پروگرام نے ’تولوا فوڈز ‘کے لیے ڈیو کی ترقی کی حکمت عملی پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ وہ کہتی ہیں’’کوچرن فیلوشپ نے تولوا کے لیے کئی دروازے کھول دیے،مجھے یو ایس ڈی اے اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) جیسے اہم اداروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا موقع ملا جو ہماری برآمدات کے عزائم کے لیے ضروری رہا ہے۔‘‘
اس پروگرام سے ملنے والے اہم اسباق میں سے ایک یہ تھا کہ مصنوعات کو موثر طور سے کیسے رکھا جائے، موثر بازارکاری کے منصوبے کیسے تیار کیے جائیں اور مصنوعات کے کامیاب اجراء کو کیسے انجام دیا جائے۔
ایک اور اہم سبق کاشتکاری کی جدید تکنیکوں کے بارے میں سیکھنا تھا۔ ڈیو کہتی ہیں ’’ اس پروگرام نے کاشتکاری کے جدید طریقوں اور پائیداری کے اقدامات کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کیں جن کا نفاذ ہم نے اجزا ء حاصل کرنے کے عمل اور مصنوعات کے معیار پرکیا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں’’ اس سے پائیدار زراعت کی حمایت کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کے مصالحے اور پیسٹ فراہم کرنے کی ہماری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
تقسیم کاروں اورکاروباری ترقیاتی ایجنسیوں کے ساتھ پروگرام کے ذریعے قائم کیے گئے رابطوں نے ’تولوا فوڈز‘ کی رسائی کو وسعت دینے اور بازار میں نئے مواقع کے حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈیو مزیدکہتی ہیں’’ان تعلقات نے امریکہ میں ہماری مصنوعات برآمد کرنے اور ہماری عالمی موجودگی کی توسیع کی ہماری کوششوں کے لیے قابل قدر مدد فراہم کی ہے۔‘‘
ڈیو کا کہنا ہے کہ زرعی برانڈ شروع کرنا ایک کاروبار سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر ایک اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں’’زرعی کاروبار میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے میرا اہم مشورہ یہ ہے کہ اپنے گاہکوں کے ساتھ شفافیت اور ایمانداری کو ترجیح دیں۔ دراصل آپ ایسی مصنوعات پیش کرتے ہیں جو براہ راست ان کی صحت اور فلاح و بہبود کو متاثر کرتی ہیں۔ واضح بات چیت کے ذریعے اعتماد پیدا کرنا اور اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنا طویل مدتی کامیابی اور گاہکوں سے وفاداری کے لیے اہم ہے۔‘‘
ادیتی شرما ترویدی
اپنے خاندان کی پہلی خاتون کسان پیشہ ور ادیتی شرما ترویدی کہتی ہیں کہ ساتھی خواتین کسانوں کے ساتھ کام کرنے، نئے ہنر سیکھنے اور مالی طور پر خود مختار ہونے نے ان کے شوق کو پروان چڑھایا ہے۔ ممبئی میں واقع ان کی کمپنی ٹیمپل ٹاؤن فارمز،گھی، شہد، سرسوں کا تیل، دال اور مصالحے جیسے نامیاتی اورصحت مند پیک شدہ کھانے تیار کرتی ہے۔
کوچرن فیلوشپ پروگرام کے ذریعے ترویدی یو ایس ڈی اے سے تصدیق شدہ کسان بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ کوچرن فیلوشپ پروگرام نے مجھے پیچیدہ کھانے کے عمل اور کاشتکاری کی جدید تکنیکوں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کیں۔ میں نے کئی فارموں اور کولڈ اسٹوریج پلانٹوں کا دورہ کیا اور دوسرے کاروباری افراد سے بھی رابطہ کیا۔ پروگرام نے مجھے اپنی حکمت عملی اور فروخت کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے میں مدد کی۔‘‘
ترویدی نے چھ سال سے زیادہ عرصے تک مقامی خاتون کسانوں کے ساتھ کام کیا ہے اور انہیں نامیاتی کھیتی، مالی ترغیبات کی تربیت اور صحت سے متعلق آگاہی فراہم کی ہے۔ اس سے کچھ خواتین کسانوں کو اپنے برانڈلانچ کرنے میں مدد ملی ہے۔
کوچرن فیلوشپ پروگرام سے ترویدی نے جو معلومات حاصل کیں، ان سے زیادہ سے زیادہ مقامی خواتین کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ ترویدی کہتی ہیں’’کوچرن فیلوشپ پروگرام میں ملنے والی معلومات کی بدولت، میرے ایک ساتھی کسان نے کھاد پروسیسنگ پلانٹ شروع کیا۔اس پروگرام سے مجھے ایک کسان کے طور پر بہت اعتماد ملا ہے اور میرے برانڈ کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
ترویدی زرعی کاروبار کے خواہشمند پیشہ وروں کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ پہلے سے طے شدہ تصورات یا تعصبات سے آزاد ہو کر کھلے ذہن کے ساتھ اپنے منصوبوں پر کام کریں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ذہنیت نہ صرف انہیں کسی بھی شعبے میں کامیابی سے ہمکنار کرے گی بلکہ معاشرے کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔
وہ کہتی ہیں ’’کاش میں اپنے کاروباری سفر کے آغاز میں خود ایک مشورے پر کام کر سکتی کہ اگر آپ زندگی یا کاروبار میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس میں ’میں‘نہیں ہونا چاہیےبلکہ ہمیشہ ’ہم‘ہونا چاہیے۔‘‘
بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔
رواں مالی سال میں براہ راست ٹیکس کی وصولی نئی بلندی کو چھو گئی ہے۔…
سال 2024 میں، ہندوستان نے 129 بلین ڈالر کے ساتھ ترسیلات زر (منی ریمیٹنس) وصول…
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکہ نے اس معاملے پر مسلسل اپنے خدشات کا…
کیمیکل اور کھاد کی مرکزی وزیر مملکت انوپریہ پٹیل نے کہا کہ ہندوستان کی دواسازی…
ہندوستان میں تجدید شدہ اسمارٹ فون مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس ترقی کے…
پارلیمنٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق بھارت مالا پراجیکٹ کے تحت 31 اکتوبر 2024…