تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے آج ریاستی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرسکتے ہیں، جس میں وفاقی ڈھانچے میں تبدیلی اور ریاستی خودمختاری کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیاجائے گا۔ اس قرارداد کا مقصد مرکزی حکومت سے زیادہ اختیارات اور فیصلہ سازی کی خودمختاری حاصل کرنا ہے، خاص طور پر تعلیم، صحت، مالیات اور قانون سازی کے شعبوں میں، تاکہ ریاستیں اپنی ضروریات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔ مہینے کے آغاز میں اس سلسلے میں اسٹالن نے زور دیا کہ یہ اقدام تامل ناڈو کے مفادات کے تحفظ اور وفاقی نظام میں توازن کے لیے ضروری ہے، کیونکہ موجودہ ڈھانچہ مرکز کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط ریاستیں ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد ہیں، اور اس قرارداد سے دیگر ریاستوں کو بھی اپنی آواز اٹھانے کی ترغیب ملے گی۔
یہ قرارداد 1974 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ کرونانیدھی کے پیش کردہ ریاستی خودمختاری کے مطالبے کی بازگشت ہے، جسے اسٹالن نے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں، جب مرکز کی پالیسیاں جیسے کہ قومی تعلیمی پالیسی (NEP) اور دیگر وفاقی قوانین ریاستی مفادات سے متصادم ہیں، خودمختاری کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ قرارداد میں مجوزہ ترامیم میں آئین کے آرٹیکل 246 اور ساتویں شیڈول میں تبدیلی شامل ہے، تاکہ ریاستیں اپنے وسائل اور ترجیحات پر زیادہ کنٹرول حاصل کر سکیں۔ اسٹالن نے دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی تعاون کی اپیل کی، تاکہ یہ مطالبہ قومی سطح پر ایک تحریک کی شکل اختیار کرے۔
اس قرارداد سے قبل اسٹالن نے حال ہی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا، جس میں گورنر آر این روی کی جانب سے دس بلوں کی منظوری روکنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ انہوں نے اسے تمام ریاستی حکومتوں کے لیے ایک تاریخی فتح قرار دیا، جو گورنرز کے غیر ضروری مداخلت کے خلاف ایک مثال قائم کرتی ہے۔ اسٹالن نے کہا کہ گورنرز کو ریاستی اسمبلیوں کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے، اور یہ قرارداد اسی جذبے کو آگے بڑھاتی ہے۔ قرارداد میں گورنر کے کردار کو محدود کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، تاکہ وہ ریاستی قانون سازی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
اس اقدام پر سیاسی حلقوں میں مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ ڈی ایم کے اتحادی جماعتوں نے اس کی حمایت کی ہے، جبکہ بی جے پی اور اے آئی اے ڈی ایم کے نے اسے وفاقی ڈھانچے کے لیے خطرہ قرار دیاہے۔ بی جے پی رہنما انامالائی نے کہا کہ یہ قرارداد سیاسی ڈرامہ ہے اور تامل ناڈو کے عوام اسے مسترد کر دیں گی۔ دوسری طرف، اسٹالن نے زور دیا کہ یہ کوئی سیاسی چال نہیں بلکہ تامل ناڈو کے عوام کے حقوق کی لڑائی ہے۔ انہوں نے دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی رابطے شروع کر دیے ہیں، جن میں کرناٹک، کیرالہ اور تلنگانہ شامل ہیں، تاکہ اس مطالبے کو قومی سطح پر مضبوط کیا جا سکے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، اسمبلی میں قرارداد پر بحث کی تیاری ہے، اور اسے متفقہ طور پر منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسٹالن نے اعلان کیا کہ اگر مرکز نے ان مطالبات کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو وہ قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ قرارداد کی کامیابی سے نہ صرف تامل ناڈو بلکہ دیگر ریاستوں کے لیے بھی وفاقی نظام میں ایک نئی بحث چھڑ سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ قدم بھارت کے وفاقی ڈھانچے کو ازسرنو ترتیب دینے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے وسیع تر سیاسی اتفاق رائے ضروری ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ اگرچہ چین نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی…
نجم سیٹھی نے کہا کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کچھ دنوں کیلئے جنگ…
سرسوتی نے پوچھا، "ان (دہشت گردوں) سے کسی نے لڑائی نہیں کی، کسی نے انہیں…
منی شنکر ایئر نے کہا، "لیکن آج کے ہندوستان میں، کیا مسلمان محسوس کرتا ہے…
پولیس نے بتایا کہ چھاپہ ہتھیاروں، دستاویزات اور ڈیجیٹل آلات کی برآمدگی کے لیے کیا…
فلسطینی صدر محمود عباس نے جانشین طے کرنے کی سمت میں بڑا قدم اٹھاتے ہوئے…