نئی دہلی: ابن کنول کو داستان کا شوق خاندانی وراثت کے طورپرملا تھا، ان کے افسانوں میں رشتوں کے بچھڑنے کا غم اورتہذیبی اقدارکے زوال کو محسوس کیا جا سکتا ہے، وہ ایک مخلص استاذ، معروف ادیب، مقبول افسانہ نگار، نکتہ سنج محقق اورشریف الطبع انسان تھے۔ ان خیالات کا اظہارآج غالب انسٹی ٹیوٹ اورشاگردان پروفیسرابن کنول کے اشتراک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سمینارہال میں’ابن کنول: حیات وادبی خدمات‘ کے موضوع پرمنعقد یک روزہ قومی سمینارمیں معاصر اساتذہ، معروف تخلیق کاروں اورادیبوں نے کیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسرشہپررسول نے کی جبکہ مہمان ذی وقارکے طورپروفیسراسلم پرویز، مہمانان خصوصی کے طورپروفیسرطارق چھتاری اور پروفیسرغضنفرنے شرکت کی۔ کلیدی خطبہ پروفیسرصغیرافراہیم نے پیش کیا۔ پروفیسرافراہیم نے ابن کنول کی حیات وخدمات پرتفصیلی گفتگوکی۔ انہوں نے دورطالب علمی سے لے کرعملی زندگی کا پورا نقشہ پیش کیا۔
پروفیسرابن کنول کی خدمات کا کیا گیا اعتراف
اس موقع پراستقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسرمحمد کاظم نے کہا کہ پروفیسرابن کنول کا نام لیتے ہی جن احباب سے ان پر سمینار کا تذکرہ کیا، سب نے کہا کہ میرے لائق جو خدمت ہے، اس کے لیے ہم حاضر ہیں۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بے شمارہے۔ انھوں نے بتایا کہ ابن کنول کی علمی وادبی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت پرچار یونیورسٹیزمیں تحقیقی مقالات لکھے جارہے ہیں۔ پروفیسر فاروق بخشی نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابن کنول کو یاد کرکے آج بھی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔
معروف ناول نگار پروفیسرغضنفرنے ابن کنول پرتحریرکردہ اپنا خاکہ ’بند راستے‘ پیش کیا۔ مذکورہ خاکے میں غضنفرنےابن کنول کی حیات وخدمات کوانتہائی فنکاری کے ساتھ پیش کیا۔ معروف تخلیق کارپروفیسرطارق چھتاری نے ابن کنول کے افسانوں پرتفصیلی بحث کی۔ انھوں نے زوردے کرکہا کہ ابن کنول نے سب سے پہلے افسانہ لکھنا شروع کیا۔ ان کے مزاج میں داستانیں تھیں، اس کی وجہ سے ان کے مزاج میں یہ رنگ شامل ہوگیا تھا، جوان کے افسانوں میں نظرآتا ہے۔ انھوں نے داستان کی کاپی نہیں کی۔
پروفیسرابن کنول مخلص، ایماندار اوردیانتدار تھے: ڈاکٹراسلم پرویز
سمینارمیں مہمان ذی وقارکے طورپرڈاکٹراسلم پرویزنے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ابن کنول کو میں نے ہمیشہ مخلص، ایماندار اور دیانتدارمحسوس کیا۔ ایک کامیاب انسان ہونے کے لیے حساس ہونا ضروری ہے۔ ابن کنول بہت ہی حساس انسان تھے۔ وہ رشتوں کو جوڑ کر رکھنے میں یقین رکھتے تھے۔ میں نے بہت سے اساتذہ کی تدفین میں شرکت کی لیکن کہیں بھی شاگردوں کی اتنی تعداد نہیں دیکھی؛ جتنی ابن کنول کے جنازے میں دیکھی۔ اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ اس موقع پر صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہاکہ ابن کنول دوستوں کے دوست تھے، وہ بہت خوش گفتار تھے، شعر وسخن سے ان کا گہرا رستہ تھا۔ انھوں نے ابن کنول کی ادبی سرگرمیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔اظہار تشکر ڈاکٹر ادریس احمد ڈائرکٹر غالب انسٹی، دہلی نے پیش کیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر امتیاز احمد نے کی۔
مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اوراسکالرس نے کی شرکت
اس یک روزہ قومی سمینار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، مانو حیدرآباد، خواجہ معین الدیں چشتی یونیورسٹی لکھنو ¿، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ اس موقع پر ابن کنول کی کتاب ’مزید شگفتگی‘ کی رسم اجرا بھی ادا کی گئی، جسے ابن کنول کی اہلیہ صبیحہ ناصر نے مرتب کی ہے۔ سمینار میں جن مقالہ نگاروں نے مقالے پیش کیے ان میں ڈاکٹر ابو شہیم خان، ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر اکمل شاداب، ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی،ڈاکٹر یامین انصاری، ڈاکٹر عزیر اسرائیل، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر شمس الدین، ڈاکٹروصی احمد اعظمی، ڈاکٹر عالیہ، ڈاکٹر نثار احمد، ڈاکٹر طفیل، ڈاکٹر عبد الحفیظ، ڈاکٹر غلام اخصر، شیزہ سہیل، واحدہ کوثر، ڈاکٹر امیرحمزہ، ڈاکٹر اشرف یاسین وغیرہ کے نام شامل ہیں۔اس موقع پر ابن کنول کی شریک حیات، صاحبزادیاں اور ملک کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں ان کے شاگردوں، احباب، رشتہ داروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر پروفیسر خالد علوی، پروفیسر محب اللہ، اردو اخبارات کے صحافی، ماہر تعلیم، اساتذہ و طلبا نے شرکت کی۔
نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ دو ایرانی حکام کے مطابق ملاقات ’مثبت‘ تھی۔ مسک…
ٹم پین نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے کوچ گوتم گمبھیر کی کوچنگ کے انداز پر…
اجیت دادا نے جو کہا وہ ان کی سوچ اور ان کے ووٹ بینک کے…
راولپنڈی: پاک فوج نے ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کسی بھی…
کانگریس پارٹی نے منی پور میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے…
بلوچستان میں اس وقت بی ایل اے جیسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کئی فوجی…