قومی

نئے دور کی نئی کہانی: وقت کے ساتھ بدلنے کی ضرورت

10 نومبر، (بھارت ایکسپریس): چھوڑو کل کی باتیں، کل کی بات پرانی، 1961 کی فلم ہم ہندوستانی کا مشہور گانا، ہمیں وقت کے ساتھ بدلنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ٹائپ رائٹر سے کمپیوٹر تک کے طویل سفر میں ہم بہت بدل چکے ہیں، لیکن ہم شاید کچھ پرانی باتوں اور عادات کو بدلنا بھول گئے ہیں۔ اگر ان عادات کو بھی بدل دیا جائے تو یقیناً ہم زمانے کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے۔

دیوالی سے پہلے لکھنؤ میں ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا جس میں نام نہاد مہذب لوگوں کے بے حس رویے کو دکھایا گیا۔ یہ واقعہ لکھنؤ کے پترکارپورم کا ہے جہاں ایک خاتون ڈاکٹر غریب کمہاروں کی بنائی ہوئی دکان میں لاٹھی سے مٹی کے لیمپ اور دیگر سجاوٹ کے سامان کو بے دردی سے توڑ رہی تھی۔ اس توڑ پھوڑ کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ تمام دکانیں اس خاتون کے عالیشان گھر کے بالکل سامنے واقع تھیں۔

ایسا نہیں ہے کہ پہلے تہواروں کے موقع پر ایسی عارضی دکانیں یا بازار اسی جگہ موجود نہیں تھے۔ تو اس دن اس عورت کا غصہ اچانک کیوں ٹوٹ گیا؟ اس لیڈی ڈاکٹر کا ظلم تمام سوشل میڈیا پر دیکھا گیا اور تقریباً سب کی ہمدردی صرف ان غریب کمہاروں کی طرف تھی جنہیں نقصان پہنچا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب برسوں سے اس سڑک پر یا ملک کے کسی اور شہر میں تہواروں کے موقع پر ایسے بازار اور دکانیں لگتی رہی ہیں تو پھر اس دن ایسا کیوں ہوا؟ کیا اس علاقے کے لوگ وہاں سے سامان نہیں خریدتے؟ کیا وہاں کی انتظامیہ کو معلوم نہیں کہ تہواروں کے موقع پر سڑکوں پر ایسے بازار لگائے جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سب جانتے ہیں تو پھر ایسی منڈیوں کی مخالفت کیوں؟

اگر ہمارے علاقوں میں ایسے بازار یا ہفتہ وار بازار غیر قانونی ہیں تو پھر انہیں منعقد کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟ اگر انتظامیہ کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد ہی ایسی مارکیٹیں لگائی جاتی ہیں تو کیا ان کی اجازت دینے والے حکام اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان بازاروں کے قیام سے وہاں رہنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ پھر چاہے مسئلہ امن و امان کا ہو یا ٹریفک کا۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ایسے بازار لگتے ہیں تو وہاں رہنے والے لوگ وہاں جا کر سامان خریدتے ہیں لیکن وہ ان بازاروں کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ عام طور پر ہفتہ وار بازار ہر علاقے میں اس دن لگتے ہیں جہاں مقامی بازاروں میں ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے اس بازار کا نام بھی دیا جاتا ہے، جیسے پیر بازار، بدھ بازار یا شنی بازار وغیرہ۔ برسوں سے ہر شہر میں ایسے بازار لگانے والے کسی نہ کسی محلے میں مخصوص جگہوں پر اپنی دکانیں لگا رہے ہیں۔ کئی مقامات پر لوگوں کے گھروں کے باہر ایسے بازار لگتے تھے۔

دیہی علاقوں میں اس طرح کے بازاروں کو ‘ہاٹ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں آس پاس کے دیہات کے لوگ اپنے کھیت کی سبزیاں یا اناج اور کاٹیج انڈسٹری وغیرہ میں بنی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ اس فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے وہ اسی ہاٹ سے کپڑے، اناج اور اپنے گھر کی دیگر ضروریات کی چیزیں خرید کر اپنے گاؤں لوٹتے ہیں۔

صدیوں سے دیہی علاقوں میں ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں کے بازاروں میں فرق صرف یہ ہے کہ دیہی بازار ہمیشہ خالی میدان میں لگتے ہیں اور شہری بازار رہائشی علاقوں میں۔ آج بھی دیہی علاقوں میں یہ بازار بغیر کسی احتجاج کے لگائے جاتے ہیں۔ ان بازاروں کے قیام کی وجہ سے مسئلہ صرف شہری علاقوں میں ہے۔

شہروں میں جدیدیت کے نام پر جس طرح سے زیادہ تر سامان آپ کو گھر بیٹھے مل رہا ہے، اس سے ان بازاروں کا جواز ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن عام لوگوں کے لیے اور پوش علاقوں میں کام کرنے والے گھریلو ملازموں کے لیے یہ اب بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دو سال تک کووڈ جیسی وبا نے لوگوں کو گھر سے نکالنے پر پابندی لگا دی تھی۔ ایسے میں ان بازاروں کا نہ ہونا برابر ہو گیا۔

لیکن ہمارے بچپن میں جب یہ ہفتہ وار بازار لگتے تھے تو شہری علاقوں میں آبادی بھی کم تھی اور سڑکوں پر گاڑیاں بھی کم تھیں۔ اس لیے ہر کوئی ان بازاروں میں آرام سے تھا۔ لیکن جوں جوں آبادی بڑھی، گاڑیوں اور مکانات کی تعداد بھی بڑھی۔ جس کی وجہ سے ان بازاریوں کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا۔ بازاروں میں دکانیں بھی کم ہونے لگیں اور گاہک بھی۔

انتظامیہ کی جانب سے شہروں میں ترقی کے نام پر نئی کالونیاں قائم کی جانے لگیں۔ وہاں بڑے بڑے ٹاور یا عالیشان بنگلے بننے لگے۔ ان کالونیوں میں آباد ہونے تک ان بازاروں کا فائدہ اس علاقے میں رہنے والے پرانے لوگوں نے اٹھانا شروع کر دیا۔ اس لیے ان سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔ جوں جوں آباد کاری بڑھی، ایسے ہی لوگوں نے ان بازاروں کے خلاف انتظامیہ سے شکایت کی اور کچھ عدالت تک گئے۔

لیکن مسئلہ کا کوئی مستقل حل نہیں نکل سکا۔ اگر دونوں فریق اپنے اپنے نقطہ نظر پر قائم رہیں تو تصفیہ کیسے ہوگا؟ دونوں فریقوں کو کچھ صبر اور عملی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ انتظامیہ کو اس کا حل بھی نکالنا چاہیے کہ اگر کسی کو ایسی مارکیٹوں پر کوئی اعتراض ہے تو ان بازاروں کو دوبارہ ایسی جگہ پر قائم کیا جائے جہاں سب کی سہولت ہو۔ ایسے بازاروں کو خالی میدانوں میں یا ان جگہوں پر ہونا چاہیے جہاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لیے امن و امان برقرار رکھنا آسان ہو۔ صرف ایسی تبدیلیاں ہی اس مسئلے کو حل کریں گی۔ اگر ایسی تبدیلیاں کی جائیں تو کسی مہذب انسان کو غریبوں کے تئیں اتنا غصہ نہیں آئے گا جیسا کہ لکھنؤ میں ہوا، جو کہ قابل مذمت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بدلنے کی ضرورت ہے، عوام کے صرف ایک طبقے کو نہیں۔

(مصنف دہلی میں قائم کالچکر نیوز بیورو کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔)

Bharat Express

Recent Posts

Donald Trump vs Kamala Harris: ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس، کس کی جیت ہوگی بھارت کے لیے فائدے مند؟

ٹرمپ یا کملا ہیرس جیتیں، دونوں ہندوستان کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کیونکہ انڈو پیسیفک…

2 hours ago

Delhi Road Accident: دہلی میں بے قابو ڈی ٹی سی بس نے پولیس کانسٹیبل اور ایک شخص کو کچلا، دونوں افراد جاں بحق

تیز رفتار بس مونسٹی کے قریب لوہے کے ایک بڑے کھمبے سے ٹکرا گئی۔ کھمبے…

3 hours ago