میری بات

Rajasthan Congress: اشوک گہلوت ہی راجستھان کے ’اعلیٰ کمان‘

راجستھان کانگریس کا بحران نیا ہوتے ہوئے بھی نیا نہیں ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے پنجاب میں بھی انتخابات سے پہلے ملک نے کانگریس کی ایسی ہی جدوجہد دیکھی تھی۔ راجستھان میں بھی 8 ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں اب دونوں ریاستوں کو جوڑکر بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا راجستھان میں بھی کانگریس پنجاب کی طرح جیت کے جبڑے سے ہار نکال کرلانے کی تیاری کر رہی ہے؟ کیا پنجاب کی طرح راجستھان بھی کانگریس ہائی کمان کی کشمکش کی بھینٹ چڑھ رہا ہے؟ سچن پائلٹ آخرکیوں ’راجستھان کے نوجوت سنگھ سدھو‘ بننے پر آمادہ ہیں؟

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے کہ سچن پائلٹ کی نظرراجستھان کے وزیراعلی اشوک گہلوت کی کرسی پرہے۔ اس لئے موضوع بھی انہوں نے ایسا منتخب کیا ہے، جو گہلوت کو مشکل میں ڈالنے والا ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے، کانگریس نے وعدہ بھی کیا تھا کہ اقتدار میں لوٹنے پروسندھرا راجے حکومت کے دوران ہونے والے مبینہ 45,000 کروڑ روپئے کے کان کنی گھوٹالہ کی انکوائری کرائی جائے گی۔ اب اس معاملے کو اٹھا کرسچن پائلٹ ایک طرح سے گہلوت اور وسندھرا کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑکو لے کر دہائیوں سے چل رہی سیاسی بحثوں کو سچائی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ فضول، بیکار، غدارجیسی ان تمام صفتوں کا جواب بھی مانا جا سکتا ہے، جن سے وقتاً فوقتاً گہلوت انہیں نوازتے رہے ہیں۔

اوپری طورپراگر دیکھا جائے توسچن پائلٹ نے جو مسئلہ اٹھایا ہے، اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ یہی بات ان کی عدم اطمینان کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، جس کی جڑیں گزشتہ اسمبلی انتخابات تک جاتی ہیں، جس کے بارے میں ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ پائلٹ کی مقبولیت اورکوششوں کی وجہ سے کانگریس نے جیت حاصل کی تھی۔ اس خیال کے نظریے سے  وزیراعلیٰ کی کرسی پران کے دعوے کو درست بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے، لیکن سیاست ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں بہت کچھ درست ہوتے ہوئے بھی غلط ہوجاتا ہے اوربہت سے حالات میں جوغلط لگتا ہے، اس سے صحیح کچھ اور ہو ہی نہیں ہوسکتا۔ لگتا ہے سچن پائلٹ ایک بارپھر سیاست کے اس سبق کو سمجھنے میں غلطی کر گئے ہیں۔ دو یا تین باتیں ہیں- سب سے پہلے تو اخلاقی طور پرسچن پائلٹ کو اس مسئلہ پرانشن کرنے کا کتنا حق ہے؟ ریاست میں کانگریس صدر رہتے ہوئے انہوں نے ایک بار بھی اس مبینہ بدعنوانی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ گہلوت حکومت میں وہ ڈیڑھ سال تک نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے، لیکن تب بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب انتخابات سے پہلے اس معاملے کو ہوا دے کر ان کی نیت ’معصوم‘ نہیں لگتی۔ دوسری بات انشن کی ٹائمنگ کو لے کر ہے۔ سچن پائلٹ کو شاید لگا ہوگا کہ ایسے وقت میں جب راہل گاندھی زوروشور سے اڈانی معاملہ اٹھا کرمرکزی حکومت کو بدعنوانی کے معاملے پرگھیر رہے ہیں، تب ان کے اس الزام کی جانچ سے پیچھے ہٹنا اشوک گہلوت کے لئے مشکل ہوگا اور وہ ایک ہی داوں سے ریاست کے دو سب سے اہم لیڈران- اشوک گہلوت اور وسندھرا راجے کو چت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔۔

لیکن اس معاملے پر کانگریس قیادت کے تیوردیکھ کرایسا لگتا ہے کہ پائلٹ کی سیاسی پرواز پھرسے بھٹک گئی ہے۔ ایک طرف پارٹی اپنے سب سے مشہورچہرے راہل گاندھی کے سیاسی مستقبل کو لے کرحکومت سے دو دو ہاتھ کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف وہ کرناٹک انتخابات میں اپنے تمام وسائل جھونک رہی ہے، جہاں اس کے پاس اقتدار میں لوٹنے کے بہترامکانات بھی بتائے جا رہے ہیں۔ اس سب کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کی نئی کوششوں کا محوربھی بنتی ہوئی نظرآ رہی ہے۔ ایک طرح سے، کانگریس اپنے سیاسی مستقبل کے سب سے اہم موڑ پرکھڑی ہے، جہاں ایک دہائی کی سیاسی بنواس کے بعد اسے کچھ ‘اچھے دن’ کی آہٹ مل رہی ہے۔ ظاہر طورپراس قواعد میں اشوک گہلوت کا کردار بھی اہم ہوگا، جیسا کہ وہ ماضی میں بھی اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے کرتے رہے ہیں۔

گہلوت ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں، جو مخالفین کو سنبھالنا جانتے ہیں اورکانگریس کی مرکزی قیادت ان کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس صدر کے انتخاب میں آخری وقت میں دکھائی گئی ان کی ‘جادو گری’ کو بھی اعلیٰ کمان نے دل کے اوپر دماغ رکھ کرکسی طرح ہضم کرلیا۔ دراصل، گہلوت کانگریس کے ایسے ہی مشکل کشا د ہیں، جو وقتاً فوقتاً کانگریس کو سیاسی بھنور سے باہر نکالتے رہے ہیں۔ تین سال قبل راجستھان میں بی جے پی کے آپریشن لوٹس کوناکام کرنے سے پہلے بھی دوسری ریاستوں میں کانگریس کی حکومتوں کو بچانے میں کانگریس میں چانکیہ کا کردار ادا کرتے ہوئے نبھاتے ہوئے نظرآئے ہیں۔ احمد پٹیل کے انتقال کے بعد کانگریس میں ایسی خوبی رکھنے والے شاید وہ واحد لیڈربچے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گہلوت کانگریس کے ان چنندہ لیڈران میں ہیں، جو گاندھی فیملی کے بھروسہ مند اورقابل اعتماد ہیں۔ ایسے کئی مواقع گنائے جا سکتے ہیں، جب گہلوت پوری مضبوطی کو گاندھی خاندان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے نظر آئے ہیں۔ حال ہی میں جب راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کوای ڈی نے پوچھ گچھ کے لئے بلایا تھا، تب بھی 71 سالہ گہلوت دہلی کی سڑکوں پر مرکزی حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ کانگریس کے اندران کے سیاسی قد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو گجرات وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا گڑھ ہے، اس کی ذمہ داری بھی کانگریس نے طویل عرصے سے انہیں سونپ رکھی ہے۔

اتنا ہی نہیں، پورے ملک میں کانگریس کے خلاف مرکزی حکومت کی جارحانہ مہم کے درمیان انہوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں راجستھان کے لوگوں کے لئے جوکچھ کیا ہے، وہ شاندارہے۔ ریاستی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی کئی پالیسیوں اورپروگراموں کا زمینی سطح پر مثبت اثرپڑا ہے۔ راجستھان میں بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی ان کے تعاون کے بغیرممکن ہوسکتی تھی؟ گہلوت سے متعلق اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پرمیں کہہ سکتا ہوں کہ وہ مکمل طور پر زمینی سطح کے سیاست داں ہیں۔ کھیت-کھلیان اورغریب مزدور سے لے کرجے پور دہلی تک وہ بڑی آسانی سے ہرطبقے میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ رشتے بنانے سے لے کر رشتوں کا صحیح طریقے سے استعمال کرنا بھی انہیں بخوبی آتا ہے۔ تازہ ترین واقعات میں بھی یہ صاف نظر آرہا ہے کہ کانگریس کی مرکزی قیادت پوری طرح اس کے پیچھے کھڑی ہے۔

رہی بات پائلٹ کی، توان کے اگلے قدم کا سب کوانتظار ہے۔ بہت سی قیاس آرائیاں ہوا میں تیرنے شروع ہوگئے ہیں- سچن پائلٹ کانگریس چھوڑیں گے، اپنی خود کی پارٹی بنائیں گے، پہلی بار کانگریس اوربی جے پی کو ایک ساتھ نشانہ بناکروہ اروند کیجریوال کی زبان بول رہے ہیں، اس لئے عام آدمی پارٹی سے ہاتھ ملائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ سچن پائلٹ اس میں سے کچھ بھی کریں گے تو اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی ماریں گے۔ کسی پارٹی کے لئے یہ غیرمعمولی بات نہیں ہے کہ اس کے سرکردہ لیڈران اقتدار کے لئے آپس میں لڑیں، لیکن اگرایسا انتخابات کے اتنے قریب ہوتا ہے تو یہ انتہائی خطرناک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گہلوت اور پائلٹ کے درمیان اختلاف کے بجائے دلوں کی دوری زیادہ ہیں۔ اسی لئے کانگریس کے لئے بھی اس سیاسی نفرت کے  بازار میں محبت کی دکان کھولنا فی الحال پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔

میرا اندازہ ہے کہ ریاستی انچارج کے سمجھانے بجھانے کے باوجود سچن پائلٹ نے یہ قدم اٹھایا ہے، تو بہت سوچ سمجھ کراٹھایا ہے۔ انہوں نے ایسے مواقع پرروایتی طور پرہونے والی بیان بازی سے بھی وہ بچے ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کا ارادہ کانگریس میں رہ کراپنی سیاسی جگہ کو بڑھانا ہے۔ اعلیٰ کمان جب ان سے اس معاملے میں جواب طلب کرے گا تب وہ پارٹی میں اور خاص طور پرالیکشن کے وقت خود اور اپنے حامیوں کو اہمیت دینے کی ضمانت مانگیں گے، جس پر آگے حکومت سے تعاون کرنے کی شرط پر مجھے لگتا ہے کہ رضامندی بھی بن جائے گی۔ اسی طرح کی گزارش اشوک گہلوت سے بھی کی جائے گی تاکہ الیکشن تک آل از ویل (سب کچھ ٹھیک) کا ماحول بنا رہے۔

-بھارت ایکسپریس

Upendrra Rai, CMD / Editor in Chief, Bharat Express

Recent Posts

Parliament Winter Session: پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 25 نومبر سے 20 دسمبر 2024 تک چلے گا

آنے والے سرمائی اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ 26 نومبر کو یوم دستور…

1 hour ago