BBC Documentary:وزیر اعظم نریندر مودی پر بی بی سی کی ایکدستاویزی فلم کو لے کر ملک میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بائیں بازو کی تنظیموں سے وابستہ طلبہ تنظیمیں پابندی کے باوجود دستاویزی فلم کی اسکریننگ پر بضد ہیں۔ خاص کر دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس تنازعہ کو لے کر کافی ہنگامہ ہے۔ دونوں مقامات پر متنازعہ دستاویزی فلم کی نمائش روکنے کی یونیورسٹی انتظامیہ کی مبینہ کوششوں کے خلاف طلبہ تنظیمیں متحرک ہو رہی ہیں۔ یہ معاملہ اب یونیورسٹیوں کے کیمپس تک محدود نہیں رہا بلکہ سیاسی گلیاروں تک پھیل چکا ہے۔ کانگریس کی کیرالہ یونٹ نے پابندی کے باوجود ریاست میں دستاویزی فلم کی عوامی اسکریننگ کی۔ حکومت ہند کا مؤقف ہے کہ سال 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات پر وزیر اعظم مودی کی شخصیت پر بنی اس دستاویزی فلم میں جس طرح سے حقائق کو غلط اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، اس سے برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی کی نوآبادیاتی ذہنیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ لہذا اسی لیے حکومت ہند نے اس دستاویزی فلم پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن جس طرح ملک کی سیاسی اپوزیشن آزادی اظہار سے جوڑ کر اپنی کارکردگی پر ڈٹی ہوئی ہے، اس سے تنازعہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم، تنازعہ کے درمیان، انل انٹنی نے کیرالہ میں کانگریس پر اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کا الزام لگا کر خود کو اس سے الگ کر لیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے والد اے کے انٹنی خود اپنے طویل سیاسی کیریئر میں تین بار کانگریس سے استعفیٰ دے کر پارٹی میں واپس آئے ہیں۔
درحقیقت اس جھگڑے کی وجہ نہ صرف دونوں فریقوں کا باہمی اختلاف ہے بلکہ اس کا موضوع اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ پہلا سوال واضح طور پر اس دستاویزی فلم کے مقصد کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس واقعے کے بیس سال بعد اچانک ایسا کیا ہوا کہ اس پر دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی ضرورت پڑ گئی۔ کیا کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جو اس واقعے کو دوبارہ دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں مودی کو کلین چٹ دے دی ہے۔ گجرات فسادات کے قصورواروں کو سزا مل چکی ہے، کئی اب بھی جیل میں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد سے نریندر مودی تین بار گجرات کے اسمبلی انتخابات جیت چکے ہیں اور دو بار عام انتخابات جیت چکے ہیں، جو اسی جمہوری عمل کی بنیاد ہے، جو برطانیہ پوری دنیا کو دیتا ہے اور اسی لیے ایسا لگتا ہے۔ بی بی سی کا بطور سرکاری نشریاتی ادارہ اس طرح کا سوال اٹھانا قابل اعتراض ہے۔
دستاویزی فلم کا مواد بحث کا موضوع ہے، سب سے پہلے اس کا عنوان ‘2002 – دی مودی سوال’ اسے متنازعہ بنانے کی سازش کرتا نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے تو پروڈیوسرز کی نیتوں میں نفی اس طرح کے عنوان سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس واقعے کے تناظر میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے کردار سے متعلق بہت سے سوالات کا جواب آنا باقی ہے اور یہ حل طلب مسائل ملک کے کسی نہ کسی مستقل مسئلے کی علامت بن گئے ہیں۔ لیکن دستاویزی فلم سے یہ واضح نہیں ہے کہ بی بی سی کے ذہن میں نریندر مودی سے متعلق کون سے سوالات باقی ہیں۔ دوسری جانب دستاویزی فلم بھی صاف ظاہر کرتی ہے کہ اس کے بنانے والوں کے پاس کہنے کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ اتنے سالوں کے بعد کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ دونوں طرف سے جو کچھ کہنے کی ضرورت تھی وہ پہلے ہی کہہ دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیس سے متعلق ہر فریق آگے بڑھ گیا ہے۔ تو کیا یہ مغربی ممالک کی بے چینی کا نتیجہ ہے جس میں ایک مضبوط لیڈر کے تحت ہندوستان کا عروج ہے؟ مغرب کے بالواسطہ دباؤ کے باوجود کشمیر میں آرٹیکل 370 ہٹانے کا معاملہ ہو یا یوکرین کی جنگ میں روس کے ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ رکھتے ہوئے دوستی برقرار رکھنے کا معاملہ ہو یا پھر کشیدگی کے دوران بھی چین کے ساتھ بات چیت کو برقرار رکھنے کا معاملہ ہو، بھارت ایک عالمی طاقت ہے۔ یہ مضبوطی سے مرکز بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ G-20 کے صدر کے طور پر موسمیاتی تبدیلی سے لے کر گلوبل ساؤتھ کے خدشات تک کے مسائل پر ہندوستان کا قائدانہ کردار مغربی طاقتوں کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں حکومت ہند کی دلیل میں یہ خوبی ہے کہ دستاویزی فلم دراصل استعماری ذہنیت سے متاثر ہوکر حقائق کو مسخ کرکے ہندوستان کی سالمیت کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ بی بی سی کی اس دستاویزی فلم پر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی بحث کی گئی ہے جہاں برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے خود ایک باضابطہ بیان دیا ہے کہ ان کا ملک دنیا کے کسی بھی حصے میں تشدد کو برداشت نہیں کرتا، لیکن وہ اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتے۔ دستاویزی فلم میں وزیر اعظم مودی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
اس تنازعہ میں اپنے ملک کے کردار کو دیکھ کر رشی سنک نے وضاحت دینے میں جس رفتار کا مظاہرہ کیا وہ بھی عالمی سطح پر وزیر اعظم مودی کے بڑھتے قد پر مہر ثبت ہے۔ گجرات فسادات کے تین سال بعد امریکہ میں جارج بش حکومت نے نریندر مودی کے امریکی ویزے پر بھی پابندی لگا دی لیکن پھر امریکی انتظامیہ کو اپنی غلطی سدھارنے میں تقریباً ایک دہائی لگ گئی۔ ویزا پابندی ہٹائے جانے کے بعد اب امریکہ جس انداز میں وزیر اعظم مودی کے استقبال کے لیے اپنے بازو پھیلا رہا ہے، ان کا ہر امریکی دورہ تاریخی ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ براک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جو بائیڈن بھی وزیراعظم کے استقبال کے لیے خود کھڑے دیکھے گئے ہیں۔ ایک طرف تو ستمبر 2014 میں اپنے پہلے دورہ امریکہ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی عوام کا دل جیت لیا تھا تو دوسری طرف دو سال بعد 8 جون 2016 کو انہوں نے دونوں سے خطاب کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس دن وزیر اعظم کے خطاب کے دوران پورا ایوان متعدد بار تالیوں سے گونج اٹھا اور اراکین اپنی کرسیوں سے کھڑے ہو کر انہیں مبارکباد دیتے نظر آئے۔
میں نے تازہ تنازعہ میں ملک کی سیاسی اپوزیشن کے کردار کو بھی مایوس کن پایا ہے۔ سیاسی طور پر اسے وزیر اعظم کی مخالفت کا پورا حق حاصل ہے لیکن جب عالمی سطح پر وزیر اعظم کے عہدے پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی برادری کو متحد ہو کر ملک پر انگلیاں اٹھانے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ جب ملکی حکومت کے بہانے بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس کے خلاف پوری سیاسی بحث ایک کیمپ میں کھڑی نظر آئی ہے۔ پھر بھی کچھ زیادہ غلط نہیں ہوا۔ تنازعہ کو مزید وزن نہ دے کر اپوزیشن کے لیے اب بھی موقع کھلا ہے کہ وہ خود کو قوم اور سیاسی طور پر ذمہ دار ثابت کریں۔
-بھارت ایکسپریس
تفتیش کے دوران گل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بابا صدیقی کے…
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں کا استعمال احتیاط سے منتخب تحائف…
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت اور نوکر شاہی پر کنٹرول سے متعلق کئی…
ڈاکٹر راجیشور سنگھ نے ملک کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے اور…
لندن میں امریکی سفارت خانہ نے کہا کہ مقامی افسرلندن میں امریکی سفارت خانہ کے…
ایڈوکیٹ وجے اگروال نے اس کیس کا ہندوستان میں کوئلہ گھوٹالہ اور کینیڈا کے کیسوں…