منی پور جل رہا ہے۔ تقریباً تین ماہ سے ملک کی ایک اہم ریاست بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور اسے انتشار پسند عناصر کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ بے لگام تشدد کے شعلے نہ صرف منی پور یا شمال مشرق کو جھلسا رہے ہیں بلکہ دہلی میں پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس بھی اس کے اثرات سے اچھوتا نہیں رہا۔ ریاست کے دو بڑے نسلی گروہ میتئی اور کوکی کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تشدد میں ہزاروں افراد زخمی اور 60 ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پڑوسی ریاست میزورم میں 12 ہزار سے زائد لوگوں کے ہجرت کرنے کی بھی خبر ہے۔ سینکڑوں گھر، عبادت گاہیں اور گاڑیاں تباہ ہو چکی ہیں اور سرکاری اسلحہ خانوں سے ہزاروں کی تعداد میں اسلحہ چوری کر لیا گیا ہے۔ اندازے کے مطابق افراتفری میں ریاست بھر میں تقریباً چار ہزار ہتھیار اور پانچ لاکھ گولیاں چوری ہوئی ہیں،یعنی اس وقت دونوں برادریوں کے پاس اپنے اپنے اسلحہ خانے ہیں۔تشدد کے اتنے لمبی عرصے سے بے لگام رہنے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔
اس سب کے بیچ کوکی خواتین کے خلاف میتئی مردوں، ملیشیاؤں اور عسکریت پسندوں کی طرف سے جنسی تشدد کے کئی سنگین واقعات بھی سامنے آئے ہیں، اور تمام دستیاب شواہد نسلی تنازعہ کے حصے کے طور پر جنسی تشدد کے وسیع پیمانے پر استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر، 19 جولائی کو منظر عام پر آئی وہ ویڈیو جس میں میتئی مردوں کا ایک ہجوم دو برہنہ کوکی خواتین کو ایک دیہی سڑک گھماتے اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے دکھاتی ہے، جہاں ان میں سے ایک کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس ویڈیو نے پورے ملک کو سکتے میں لادیا ہے اور حقیقی معنوں میں کہیں تولگاتار نظرانداز ہورہے منی پور کو،تین مہینوں میں پہلی بار سنجیدہ بحث کے مرکز میں لے آیا ہے۔ کوکی اکثریتی علاقے میں ایک میتئی خاتون کی عصمت دری کی جعلی خبر کو اس افسوسناک واقعے کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے جس نے میتئی مردوں کو درندوں سے بھی بدتر پرتشدد ردعمل کیلئے اکسایا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کو تخلیق کی بنیاد، شکتی، خدا کا سب سے انمول ورثہ مان کر پوجا کی جاتی ہو، جس کی رہائش میں دیوتاؤں کے قیام کے تصور کو ویدک تسلیم کیا گیا ہو،صحیفے جس کے حکایات سے بھرے ہوئے ہوں،وہاں خواتین کے ساتھ ایسا ظلم تصور سے باہر ہے۔ اس کی تلافی کے لیے کوئی بھی سخت سے سخت کارروائی ناکافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پر ایسی کوئی کارروائی ہوتی نظر بھی نہیں آرہی ہے۔ ریاست کی انتظامیہ دیگر عام جرائم کی طرح اس کی تفتیش میں مصروف ہے۔ اگر واقعے کی تصویریں وائرل نہ ہوئی ہوتیں تو دومہینے پرانی بتاکر بھلادی گئی اس واقعے کی ایف آئی آر جولائی میں درج نہیں ہوتی ۔ جس ریاست کا وزیراعلیٰ ٹیلی ویژن چینل پراس واقعے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے خود یہ قبول کررہا ہو کہ تشدد کے بیچ یہ واحد معاملہ نہیں بلکہ ایسے سینکروں معاملے ہوئے ہیں ، وہاں انصاف کی امید کی کوئی وجہ بچتی بھی ہے کیا؟
آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ریاست کی انتظامیہ امید کے نام پر دیوالیہ ہو گئی ہے؟ یقینی طور پر منی پور کے حالات آسان نہیں ہیں، لیکن اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ ریاستی حکومت بروقت حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہی، اور اس طرح پوری ریاست میں حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ 3 مئی کو کوکی قیادت نے ریاست کے 16 میں سے 10 اضلاع میں قبائلی یکجہتی مارچ نکالا تھا۔ اگر اسی دن اس جلوس کے راستوں کے ساتھ تمام حساس مقامات پر مناسب فورس تعینات کر دی جاتی تو یہ تشدد کو جڑ سے کچلاجاسکتا تھا۔ تین ماہ سے جاری رہنے والے تشدد میں پہلے تین دنوں میں ہی سب سے زیادہ نقصان ہوا، جس میں 72 لوگ مارے گئے، جن میں سے 60 مبینہ طور پر امپھال وادی میں رہنے والے کوکی تھے۔میتئی لوگوں کے ہجوم نے جلوس کے دن ہی سرکاری اسلحہ خانے کو نشانہ بنایا، جس سے اس تشدد کی منصوبہ بندی کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ باقی مقامی انتظامیہ کی طرح، ریاست کی پولیس کا دامن بھی میتئی گروپ کا ساتھ دینے اور ہجوم کو بڑی تعداد میں اسالٹ رائفلز، لانگ رینج کی بندوقیں اور یہاں تک کہ 51 ایم ایم مورٹار جیسے ہتھیاروں کے ساتھ بھاگنے کی اجازت دینے کے الزامات سے داغدارہوچکا ہے۔ بھلے ہی نسبتاً کم لیکن کوکی اکثریتی علاقوں میں کوکی پولیس افسران نے بھی مبینہ طور پر ایسا ہی کیا ہے۔
واضح طور پر ریاست میں بھروسے کا بھی بٹوارہ ہوچکا ہے۔ جس طرح کوکیوں کومیتئی کی اکثریتی والی مقامی پولیس پر بھروسہ نہیں ہے، اسی طرح میتئی گروپ کا الزام ہے کہ سینٹرل فورسز، خاص طور پر آسام رائفلز، کوکیوں کے تئیں متعصب ہیں۔ 10 جون کو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ریاستی وزیر اعلیٰ، منتخب نمائندوں، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور میتئی اور کوکی کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے درمیان امن مذاکرات کی کوشش اس عدم اعتماد کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ کن وجوہات سے یہ حالات بنے، اب اس پر زیادہ لکیر پیٹنے کابھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ویسے بھی عدالت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی دلیل میں اب کوئی دم نہیں بچا ہے۔ منی پور کی عدالت نے مارچ کے آخر میں میتئی کمیونٹی کو قبائلی حیثیت دینے کا اپنا فیصلہ سنایا، لیکن یہ 19 اپریل کو عوامی ہو گیا، جب فیصلہ عدالت کی ویب سائٹ پر ظاہر ہوا۔ پھر، 17 مئی کو، سپریم کورٹ نے منی پور کی عدالت کے حکم کو ‘مکمل طور پر حقائق سے غلط’ قرار دیتے ہوئے اس پر روک لگا دی تھی۔ لیکن پھر بھی حالات میں بہتری نہیں آئی۔
تو اب بڑا سوال یہ ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ میتئی اور کوکی گروپوں کے درمیان عدم اعتماد کو دور کر منی پور میں امن اور ثالثی کی ضمانت کے لیے ریاست میں ایک غیر جانبدار انتظامیہ کے قیام سے بہتر کوئی دوسرا حل نہیں ہے ۔وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے ریاست کی عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔ اگر ان کے حامی اسے درست نہیں مانتے ہیں تو بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے حالات کو معمول پر لانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ایسے میں حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو سیاسی حساب وکتاب کو کنارے رکھ کر منی پور میں فوری طور پر صدر راج نافذ کرنا چاہیے۔ یہ اقدام تمام سیکورٹی فورسز کو خود بخود مرکزی حکومت کے تابع کردے گا اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو سلب کیے بغیر ریاستی حکومت کو برخاست کر دے گا۔
عام طور پر یہ غیر معمولی اقدام کسی تنازعہ کے ابتدائی مراحل میں استعمال کیا جاتارہا ہے، جیسے کہ سال 1993 میں جب ایک طرف میتئی ہندو اور مسلم پنگل کے بیچ اور دوسری طرف ناگاوں اورکوکیوں کے درمیان مہلک جھڑپیں ہوئیں تھیں۔ منی پور میں پہلے بھی دس بار صدرراج نافذ کیا جا چکا ہے۔ حال ہی میں 2001 میں جب ریاستی حکومت نے مقامی مقننہ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی۔ ابھی صدرراج کا نفاذ ریاستی حکومت کے تئیں کوکی کے عدم اعتماد کو دور کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔ حالانکہ، یہ دو دھاری تلوارپرچلنے جیسا ہوگا کیوں کہ اگرانتظامی سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو یہ میتئی گروپ کو ناراض بھی کر سکتا ہے۔
وائرل ویڈیو پر پی ایم مودی کے بیان نے کوکی متاثرہ خواتین کو میڈیا کے ساتھ اپنی گواہی شیئرکرنے کی ترغیب دی ہے۔ وزیر اعظم ملک کے دیگر حصوں کی طرح منی پور میں بھی بہت مقبول ہیں۔ میتئی اور کوکی دونوں نے لگاتاردوانتخابات میں ان کا چہرہ دیکھ کر ہی بڑی تعداد میں بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ وہ پرسکون ہونے کی فوری ذاتی اپیل کے ساتھ حالات میں فوری فرق پیداکرسکتے ہیں۔ صدرراج نافذ کرنے سے پہلے، وزیراعظم اس علاقے کا دورہ کر کے دونوں گروپوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ کسی کے مفادات کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ کیونکہ مرکز کی مودی حکومت جس نے پنجاب کو علیحدگی پسندوں سے اور کشمیر کو پتھربازوں سے آزاد کرایا ہے، اس کے لیے منی پور کو اس ذات پات کے فرقہ وارانہ تشدد سے آزاد کرانا مشکل ضرور ہو ، ناممکن نہیں ہوسکتا۔
مرکزی حکومت صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کرے یا نہیں یہ اس کا اختیارہے، لیکن بڑے پیمانے پر جنسی تشدد سے نمٹنے کے اقدامات اس کی اولین ترجیحات میں ہونے چاہیے۔ ان میں مجرموں کو جلد ازجلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد سے بچ جانے والوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے کی کوششیں بھی شامل ہونی چاہئے۔
میتئی اورکوکی کمیونیٹیزکے درمیان کئی سطحوں پرمساوات کی بحالی کے لیے چھوٹی چھوٹی کوششیں بھی اہم ہوں گی۔ تشدد کے آغاز کے تقریباً تین ماہ بعدبھی ، بہت سی لاشیں مردہ خانے میں لاوارث اور نامعلوم پڑی ہیں کیونکہ کوکی اور میتئی ایک دوسرے کے زیر اثر علاقوں کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کو باعزت آخری الوداعی دینےسے زخموں پرتھوڑا مرہم لگے گا۔ بڑی اصلاحات کی بنیاد لواکثر چھوٹی چھوٹی کوششوں سے ہی مضبوطی ملتی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں کا استعمال احتیاط سے منتخب تحائف…
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت اور نوکر شاہی پر کنٹرول سے متعلق کئی…
ڈاکٹر راجیشور سنگھ نے ملک کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے اور…
لندن میں امریکی سفارت خانہ نے کہا کہ مقامی افسرلندن میں امریکی سفارت خانہ کے…
ایڈوکیٹ وجے اگروال نے اس کیس کا ہندوستان میں کوئلہ گھوٹالہ اور کینیڈا کے کیسوں…
بی جے پی لیڈرونود تاؤڑے نے ووٹنگ والے دن ان الزامات کوخارج کرتے ہوئے کہا…