میری بات

داؤں پر ‘وشو گرو’ کی ساکھ

ہر نیا سال نئی امیدوں کی آغوش میں اپنی شروعات کرتا ہے۔ سال 2023 بھی اسی روایت کو لے کر ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پرہندوستان کا وقاراوراہمیت آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پرنئے معانی اختیار کر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس سال ہمارے ملک کے  چین سے آگے نکلنے کی امید ہے۔ وہیں سیاسی دبدبے کے سبب موسمیاتی تبدیلی، سبزتوانائی، ٹیکنالوجی، صحت، عالمی معیشت جیسی دنیا کو متاثر کرنے والے موضوعات پر بھی ہماری رائے کو اب مناسب توجہ مل رہی ہے۔ اس سال جی-20 گروپ کی صدارت سے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے قد کو ایک نئی جہت ملنے جا رہی ہے۔

نئے سال میں ہم جیسے جیسے آگے بڑھیں گے، جی-20 کی صدارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ہمیں اپنی  شان وشوکت اور تنوع کو ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ سب سے امیر ممالک کے ساتھ ساتھ ابھرتی معیشت والے گروپ کے صدر کے طور پر دنیا اس سال ہماری اقتصادی رفتار سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی، خلا، اختراع اوراسٹارٹ اپ تک کے شعبوں میں عمدگی کی نئی بلندیوں کا مشاہدہ کرے گا، لیکن اس سے بھی اہم پیش رفت وہ ہوگی جو ہم ‘وشو گرو’ کی اپنی پہچان کی تصدیق کرنے کی سمت میں کریں گے۔ جی-20 کی صدارت کو عالمی فلاح وبہبود کی نئی ذمہ داری کے طور پر قبول کرکے وزیراعظم نریندر مودی نے اس پہچان کو ‘وسودھیو کٹمبکم’ کے جذبے کے ساتھ  قبول کیا ہے۔ اس سلسلے میں، وزیراعظم نے ہندوستان کی صدارت  کو ایک ایسا سال بنانے کا عہد بھی کیا ہے جو “ہماری ‘ایک زمین’ کو ٹھیک کرنے، ہمارے ‘ایک خاندان’ کے اندر ہم آہنگی پیدا کرنے اور ہمارے ‘ایک مستقبل’ کو امید دینے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ ہندوستان نے جی-20 چوٹی کانفرنس میں  واضح طور پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے کہ امن اور سلامتی کے بغیر ہماری آنے والی نسلیں اقتصادی ترقی اور تکنیکی اختراع سے مستفید نہیں ہو سکیں گی۔ زور اس بات پرہے کہ دنیا ایک ہے اور ایک ہم آہنگ سیارہ بنانے کے لئے سبھی ممالک کو مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ عالمی چیلنجز کے باوجود ہندوستان خود انحصاری کے امرت کال کے کامیاب ہدف پر گامزن ہے۔ اس لئے عالمی اتحاد قائم کرنے کے وزیر اعظم کے وعدے نے صرف جی-20 کے اراکین ممالک کو ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ، پوری دنیا کے تھنک ٹٰینک اورسفارت کاروں اور بین الاقوامی اداروں کو موجودہ مشکلات پر قابو پانے کے لئے نیا اعتماد دیا ہے۔

ہندوستان پر یہ بھروسہ ایسے حالات کے درمیان ظاہر ہو رہا ہے، جب دنیا پہلے سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے اوراس کے باوجود گلوبلائزیشن تیزی سے اپنی نظریاتی رفتارکوکھو رہا ہے۔ توانائی کے بحران اوربڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوہرے پن کی وجہ سے آج ہرقوم اپنے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔ کووڈ-19 اور وبائی امراض کے بعد کی صورتحال میں چین اور ترقی یافتہ ممالک کے باہمی تعلقات نے دنیا کو معاشی بحران میں ڈال دیا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر روس-یوکرین کے درمیان اب تقریباً ایک سال سے جاری جنگ صرف ان دونوں ممالک کے ہی نہیں، بلکہ کئی عالمی اتحادوں کے صبرکا امتحان لے رہا ہے۔ ایک چیلنجنگ پہلو رکن ممالک کے درمیان فرق کو کم کرنا بھی ہے۔ وبائی امراض کے بعد معاشی اصول طے کرنے کے لیے اپنا تسلط استعمال کیا ہے، اس سے چھوٹے اورنسبتاً کمزور ممالک کے سامنے خودمختاری کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا ایک ایسے موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں عالمی نظم و نسق پرسے اعتماد مسلسل کم ہو رہا ہے۔

اس لئے نئے سال میں نئے کردارمیں، ہندوستان کئی ایسے ممالک کے لیے ایک بڑی امید بنا ہے، جو جی-20 کے براہ راست رکن نہیں ہیں۔ اس ہفتے ہوئی وائس آف گلوبل ساوتھ سمٹ سے اس کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔  یقیناً، اس پہل کا جی-20 سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے، لیکن اس سمٹ میں حصہ لینے آئے تقریباً 120 غیرجی-20 اراکین کے نقطہ نظرکو شیئر کرنے کو ایک موقع کے طور پر ہندوستان کی کوشش کے طور پر ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔ دراصل، یہ پہل وزیراعظم نریندر مودی کے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس اور ہندوستان کے وسودھیوکٹمبکم کے فلسفے سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ سال روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے ‘آج کا دور جنگ کا نہیں ہے’ والے وزیراعظم کے بیان سے بھی ہندوستانی  سفارت کاری کے حوالے سے عالمی اسٹیج پر ایک اچھا پیغام گیا تھا۔

راشٹریہ گورو کو وسیع وسعت دینے کا یہ جذبہ حال ہی میں منعقدہ ‘پرواسی بھارتیہ دیوس سمیلن’ میں بھی نظرآیا تھا، جہاں وزیراعظم نے پوری دنیا سے آئے پرواسی بھارتیوں کے درمیان جی-20 کی صدارت کو دنیا کو ہندوستان کی حصولیابیوں کے بارے میں  واقف کرانے کا ایک موقع بتایا۔  ٹھیک اسی طرح جیسے یہ دوسروں کے لئے ہندوستان کے تجربوں کی بنیاد پرایک پائیدار مستقبل کی راہ ہموارکرنے کا سنہری موقع ہے۔ بیرون ملک میں مقیم ہندوستانی درحقیقت ایک منفرد گروہ ہے، جو نہ صرف امرت کال میں ملک کی پیش رفت اورترقی میں اہم شراکت کرسکتا ہے بلکہ ہندوستان کے بارے میں اور جاننے کی دنیا کی خواہش کو موثرطریقے سے مخاطب بھی کرسکتا ہے۔

آج عالمی اسٹیج پر ہندوستان کی آواز اور پیغام کی ایک الگ ہی اہمیت ہے۔ آنے والے دنوں میں ہندوستان کی طاقت بلاشبہ مزید بڑھے گی۔ آج کا ہندوستان بکھری ہوئی دنیا میں امن، استحکام اور مشترکہ خوشحالی کو آگے بڑھانے کے قابل ہے۔ وسودھیوکٹمبکم اعلامیہ درحقیقت امن اوراستحکام کے ساتھ ساتھ امید اورہم آہنگی کے اہم نظریات کی بنیاد ہے، جو دنیا کی سب سے ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ میں ہندوستان کی صدارت کا خاکہ تیارکریں گے۔ اس  گروپ کی اسٹریٹجک اہمیت ہے کیونکہ یہ مشترکہ طور پر دنیا کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد، عالمی تجارت کا 79 فیصد، اورعالمی معیشت کا تقریباً 85 فیصد حصہ ہے۔ جی-20 اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے سبھی پانچ مستقل اراکین، جی-7 کے تمام اراکین اور سبھی برکس ممالک کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس تناظر میں جی-20 کی ہندوستان کی صدارت محض ایک سفارتی حادثہ نہیں بلکہ عالمی امن اور ترقی کے لیے ایک تاریخی تحریک ہے۔ واضح طور پر ہندوستان کے لئے جامع اور فیصلہ کن کارروائی کی سمت میں کوشش کا اسٹیج  تیار ہے۔ اس سب کے درمیان، آپسی جدوجہد میں الجھی ہوئی دنیا کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں، ہندوستان اجتماعی فیصلہ سازی کی اپنی روایت کے ذریعے اپنے جی-20 ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا اورعالمی چیلنجوں کا حل تلاش کرنے میں امید افزا کامیابی حاصل کرے گا۔

Upendrra Rai, CMD / Editor in Chief, Bharat Express

Recent Posts

CJI DY Chandrachud: سی جے آئی کے والد کو ڈر تھا کہ کہیں ان کا بیٹا طبلہ بجانے والا بن جائے، جانئے چندرچوڑ کی دلچسپ کہانی

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ والدین کے اصرار پر موسیقی سیکھنا شروع کی۔ انہوں…

2 hours ago