بنگلہ دیش میں گزشتہ چند ماہ سے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ پڑوسی ملک میں بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہروں کے بعد محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی گئی۔ حالات معمول پر آ رہے تھے کہ اچانک انصار فورس نے بنگلہ دیش کو مشکل میں ڈال دیا۔ گزشتہ اتوار کو انصار فورس کے ارکان کی جانب سے ملازمتوں کی تحفظ کا مطالبہ کو لے کر مظاہرہ تشدد میں بدل گیا، جس میں کم از کم 40 افراد شدید زخمی ہوئے۔ اس مظاہرے نے بنگلہ دیش کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں نیم فوجی معاون بال انصار فورس کے مظاہرے سے پیدا ہونے والی بدامنی نے یونس حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت نازک صورتحال سے گزر رہی ہے اور انصار فورس کے احتجاج نے اسے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ملازمتوں کو قومیانے اور بہتر کام کے حالات کے انصار فورس کے مطالبات نے حکومت کو مخمصے میں ڈال دیا ہے ،جس کے سیاسی اور سماجی طور پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
540 ٹکا روزانہ ملتا ہے
انصار فورس میں کافی عرصے سے عدم اطمینان ہے۔ اس کی وجہ انصار کارکنوں کے کام کی غیر یقینی صورتحال بتائی جاتی ہے۔ خاص طور پر وہ جو جنرل انصار ڈویژن کا حصہ ہے۔ ویلج ڈیفنس پارٹی اور بٹالین انصار کے برعکس جنرل انصار کے ارکان کو روزانہ تنخواہ کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ انہیں روزانہ 540 ٹکے ملتے ہیں جو کہ زندگی گزارنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ایسے میں جوابی فورس کے لوگ نوکریوں کو قومیانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالبے کے ساتھ انصار آرمی گزشتہ اتوار کو نیشنل پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے اور بنگلہ دیش سیکرٹریٹ کی طرف مارچ کیا۔ یہ لوگ پرامن طریقے سے ریلی نکال رہے تھے کہ اچانک تشدد شروع ہو گیا۔ اہلکاروں کی جانب سے مزاحمت کی گئی تو انصار فورس نے ہنگامہ آرائی کی جو تشدد میں بدل گئی۔
352 افراد کو گرفتار کیا گیا
انصار فورس اور حکومت کے درمیان تنازع اس وقت انتہا کو پہنچا جب ممتاز طلبہ رہنماؤں کی حراست کی اطلاع ملنے پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ حکومت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے 352 افراد کو گرفتار کیا۔ یونس حکومت ان حالات سے کس طرح نمٹ رہی ہے اس حوالے سے بھی بحث بڑھ گئی ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے کہ انصار فورس کے اندر غصہ اور بھی بھڑک رہا ہے۔ اس کے بعد وزارت داخلہ نے انصار ارکان کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لیے 7 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
انصار فورس کب بنی؟
انصار فورس کی بات کریں تو انہوں نے بنگلہ دیش کی سلامتی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود انہیں طویل عرصے تک مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد 12 فروری 1948 کو حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش میں داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے انصار فورس کا قیام عمل میں لایا تھا۔ 1965 میں جب پاک بھارت جنگ ہوئی تو انہیں جنگ میں شامل کر کے سرحد پر بنائی گئی پوسٹوں پر تعینات کر دیا گیا۔
یہی نہیں 1971 میں بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کے دوران پاکستان کی حکومت نے انصار فورس کو تحلیل کر دیا تھا ،لیکن اس کے باوجود 40 ہزار انصار افراد نے جدوجہد آزادی میں شمولیت اختیار کی اور ان میں سے ہزاروں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بھارت ایکسپریس
اللو ارجن کے والد نے کہا کہ فی الحال ہمارے لیے کسی بھی چیز پر…
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور