جم اونیل، برطانیہ کے سابق وزیر خزانہ اور پین یورپی کمیشن برائے صحت اور پائیدار ترقی کے رکن، نے ہندوستان کی کامیاب G-20 صدارت کے بعد برکس کے ہم آہنگی اور اثرات پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ O’Neill کے مطابق دہلی میں منعقدہ G20 ایونٹ نے اجتماعی جنگ جیت لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں گزشتہ ہفتے ہونے والے سربراہی اجلاس سے سامنے آنے والا مشترکہ اعلامیہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ G20 واحد فورم ہے جس میں عالمی مسائل کے حقیقی عالمی حل پیش کرنے کی گنجائش اور قانونی حیثیت ہے۔
گولڈمین سیکس اثاثہ جات کے انتظام کے سابق چیئرمین جم او نیل کہتے ہیں کہ G7 اور نئے پھیلے ہوئے BRICS جیسے متبادل گروپس مقابلے کے لحاظ سے ونڈو ڈریسنگ کی طرح نظر آتے ہیں۔ نیل نے کہتے ہیں کہ برکس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) کے حالیہ سربراہی اجلاس کے بعد، جہاں گروپ نے 6 نئے اراکین کو شامل کرنے پر اتفاق کیا، میں نے دلیل دی کہ نہ تو برکس اور نہ ہی G7 (امریکہ، جاپان، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی اور یورپی یونین) کے پاس عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کی ساکھ یا صلاحیت ہے۔اس کے بجائے، G20جس میں دنیا کی 19 بڑی معیشتیں اور یورپی یونین شامل ہیں، واحد گروپ بن گیا ہے جس کے پاس عالمی مسائل کا حقیقی عالمی حل پیش کرنے کی قانونی حیثیت ہے۔
بھارت میں جی20 کے انعقاد سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا
نیل لکھتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس سے سامنے آنے والا مشترکہ اعلامیہ اس کی مزید تصدیق کرتا ہےکہ G20 کے رکن ممالک وسیع مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے پر پہنچ گئے ہیں ۔ واضح چیلنجز کے باوجود – جیسے کہ رکن ممالک کے کام کاج میں کافی فرق – وہ ایک طویل عرصے کے بعد جس میں اس کے کردار پر سوال اٹھائے گئے تھے، G20 کی مطابقت کو دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
شی جنپنگ کی دہلی میں غیر موجودگی نے ہندوستان اور چین کے درمیان فاصلے بڑھا دیے
نیل لکھتے ہیں،”ہندوستان اور چین کے درمیان اتحاد کا فقدان نئے برکس کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہو گا۔ شی جن پنگ کی حالیہ G20 سربراہی اجلاس میں غیر موجودگی نے ان دونوں ممالک کے درمیان دوریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اب اگر شی ہمیں دوسری صورت میں قائل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مودی تک پہنچنا پڑے گا۔ موجودہ صورتحال کے مطابق G20 میٹنگ کی کامیابی مودی کو چوٹی کانفرنس کے اس سیشن میں واضح فاتح بناتی ہے۔ بہت سے تاثرات اہم ہیں، اور اس وقت مودی شی جنپنگ سے زیادہ بصیرت والے سیاست دان دکھائی دیتے ہیں۔
عالمی مسائل کے حل کے لیے نئی دہلی اعلامیہ بہت اہم ہوگا
نیل نے لکھا کہ ہمیں ان طاقتوں کی تعریف کرنی چاہئے جنہوں نے حتمی بات چیت کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا، شاید ہندوستان اور امریکہ۔ نئی دہلی اعلامیہ عالمی مسائل جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، ایک اصلاح شدہ عالمی بینک، متعدی بیماریوں پر قابو پانے، اقتصادی استحکام، یوکرین کی جنگ اور دیگر معاملات سے نمٹنے کے لیے مضبوط ٹھوس کوششوں کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ کی غیر موجودگی میں ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا تھا، تاہم اس میں شرکت کرنے والے روسی اور چینی نمائندے اپنی اپنی حکومتوں کی منظوری کے بغیر کسی چیز پر دستخط نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برکس کا اتحاد خطرے میں ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد سامنے آنے…
اکھلیش یادو نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی دھرم کے راستے پر نہیں…
نوئیڈا کے ڈی سی پی رامبدن سنگھ نے بتایا کہ یہ جعلساز اکثر اپنے فراڈ…
ایشیا میں، وزیر اعظم نے 2014 میں بھوٹانی پارلیمنٹ اور نیپال کی آئین ساز اسمبلی…
پروفیسر ایم زید عابدین نے جاب فیئر کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور کہا…
12 جولائی 2015 کو، وزیر اعظم نے بشکیک، کرغزستان میں مہاتما گاندھی کے مجسمے کی…