مصنف – محمد خضر حیات
تعلیمی پس منظر
میرا نام محمد خضر حیات ہے۔ میں ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں پٹرولیم انجنیئرنگ اور ڈیٹا سائنس کا بین الاقوامی گریجویٹ طالب علم ہوں ۔میں نے اتر پردیش کے شہر بریلی سے بیسک سائنسیز میں اوسط سے زیادہ کارکردگی کے ساتھ اپنی اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کی۔ دہرادون کی ڈی آئی ٹی یونیورسٹی سےپٹرولیم انجنیئرنگ میں انڈر گریجویٹ تعلیم کی بین موضوعاتی نوعیت نے مجھے مزید تعلیم کے لیے علمی معلومات اور عملی تجربے دونوں میں درکارمضبوط بنیاد فراہم کی۔ میں نے موضوع کی گہری تفہیم کے لیے ہمیشہ ایک سخت نقطہ نظر اپنایا ہے۔ میں نے ٹیکساس یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کیا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ممتاز محققین کی رہنمائی میں کام کرکے میں پیٹرولیم انجنیئرنگ کے شعبے کو اصل میں کچھ دے سکوں گا۔ پیٹرولیم انجنیئرنگ میں بیچلر آف ٹیکنالوجی اور ماسٹرس کورس کرتے ہوئے مجھے تیل کے کنویں میں ہیجان کی کیفیت ، تیل کی پیداوار بڑھانے اور تیل کے کنویں کا تجزیہ کرنے کا موقع ملا جہاں اعدادو شمارکے انتظام کی حیثیت کلیدی ہے کیونکہ زمین سے تیل نکالنا ایک مہنگا وسیلہ ہےجس کی وجہ سے اس سے متعلق اعداد و شمار کا مکمل تجزیہ درکار ہوتا ہے۔ توانائی کا شعبہ تبدیلی کی جانب گامزن ہے اور یہ ایندھن کی سپلائی چین کو یقینی بنانے کے دوران توانائی کی کارکردگی پر زور دیتا ہے۔ توانائی کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کرنے کے طریقے کی تلاش، دنیا کو زیادہ پائیدار توانائی کے راستے پر لے جانے میں اہم تعاون کرسکتی ہے ۔اوریہاں ڈیٹا اس منتقلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح اس شعبے میں مواقع اور چیلنجوں کو محسوس کرتے ہوئے یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ میں بھی اس کا حصہ بن جاؤں۔
میں ٹیکساس کے شہرلبیک کی ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں ڈیٹا سائنس اور پٹرولیم انجینئرنگ میں ڈبل ماسٹرس کورس کر رہا ہوں۔ فی الحال میں اپنے مقالے پر کام کر رہا ہوں جس کا عنوان ہے ’’ویلبور انٹیگریٹی اِن ہائیڈروجن اسٹوریج سائٹ۔‘‘ مستقبل قریب میں میرا مقصد پیٹرولیم کی صنعت کے ساتھ ہی ڈیٹا سائنس میں کریئر بنانے کے لیے انتہائی ضروری تکنیکی مہارت، اعتماد اور اہلیت حاصل کرنا ہے جہاں ہنرمند انسانی سرمائے کی کمی ہے، قدرتی وسائل کی بہتات ہے اور صنعت میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری جذبہ اور لگن رکھنے والے افراد کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ میں رمضان
میں جنوری ۲۰۲۱ء میں امریکہ آیا ۔ اس سال امریکہ میں میرا تیسرا رمضان ہے ۔ میں مساجد میں نماز تراویح میں شرکت کرنے، مسلم کمیونٹی کے ساتھ افطار تقسیم کرنے جیسے کمیونٹی پروگراموں میں شرکت کرتے ہوئے امسال رمضان گزارنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یہاں طلبہ کے لیے ایک مسجد ہے جو کیمپس کے بہت قریب واقع ہے جہاں ہر کوئی نماز پڑھتا ہے اور پورے رمضان کے دوران سب کو افطار کے پیکٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔
جب سے میں امریکہ آیا ہوں ٹیکساس کےلبیک میں رہ رہا ہوں۔ لبیک میں ہم شہر کی مرکزی مسجد میں صبح میں خصوصی نماز کے ساتھ عید مناتے ہیں۔ نماز عید کے بعد مسجد میں کافی اور ڈونٹس کے ساتھ ناشتہ پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے گھومتے پھرتے ہیں۔ یہاں بھائی چارے کا بہت اچھا ماحول ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال عید کے اختتامِ ہفتہ پر مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن (ایم ایس اے) کی جانب سے لبیک کی مرکزی مسجد میں ایک خصوصی عشائیہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں سب کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے اہل خانہ کے ساتھ اکٹھا ہوتا ہے اور جشن مناتا ہے۔
میں مسجد میں خصوصی نماز میں شرکت کرکے، دوستوں کو مبارکباد دے کر، نئے کپڑے پہن کر، سیوئی بنا کراور اپنے تمام دوستوں کو اپنے جائے قیام پر مدعو کرکے عید منانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔یوں ایم ایس اے کا ارادہ عید پر روایتی کھانا تیار کرنے اور ظہرانے کی میزبانی کرنے کا ہے۔
بھارت اور امریکہ میں ثقافتی اور معاشرتی امتیازات کی وجہ سے رمضان مختلف طریقے سے منایا جاتا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے روزے کے اوقات مختلف ہوتے ہیں، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے اوقات میں فرق ہوتا ہے۔ ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس کمیونٹی بھی قائم ہے جسے مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن (ایم ایس اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میں ۲۰۲۱ء سے ایم ایس اے کا رکن ہوں۔ ایم ایس اے رمضان کے دوران متعدد تقریبات کا انعقاد کرتا ہے۔ ایسوسی ایشن یونیورسٹی میں رمضان کے مہینے میں ایک دن خصوصی افطار اور خیراتی تقریب کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ ان تقریبات میں بیٹھنے کی محدود گنجائش کے ساتھ سب کا استقبال کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں امریکہ میں جو میں نے بڑا فرق دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں رمضان ایک کمیونٹی تقریب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ کمیونٹی کو شامل کرنے اور انہیں ہر ممکن طریقے سے خوشی فراہم کرنے کے بارے میں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر بین الاقوامی طالب علم ہیں جو یہاں اپنے خاندان کے ساتھ نہیں رہتے ۔ بھارت میں یہ اکثر اپنے خاندان میں ہی منانے والا تہوار ہوتا ہے۔ بھارت اور امریکہ میں رمضان گزارنے میں بہت سی مماثلتیں ہیں جیسے نماز اوراس کے فضائل پر زور، خاندان اور برادری کی اہمیت اور اس مہینے کی روحانی اہمیت وغیرہ۔
تنظیمی فعالیت اور عید الفطر کے منصوبے
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، ایم ایس اے یونیورسٹی کی سطح پر مسلم طلبہ کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایم ایس اے کی درخواست پر ہمیں کچھ فوڈ ریسٹورنٹ کے متبادل دیے گئے جو کیمپس میں حلال کھانا پیش کرتے ہیں اور ان کے مینو میں حلال ٹیگ بھی ہوتا ہے۔ رمضان کے دوران کوئی بھی ایم ایس اے رکن تقریبات کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرسکتا ہے۔ ایم ایس اے کے سابق صدر محمد الطبہ میرے اچھے دوست ہیں جن کے والد مرکزی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں ایک ساتھ طلبہ کی مسجد میں افطار کے ڈبے تقسیم کیے ہیں۔ امید ہے کہ میں نئے صدر کے ساتھ بھی یہ خدمت انجام دوں گا اور نئے دوست بھی بناؤں گا۔
یہ بھی پٹھیں ۔ Ramzan in the US, experiences of Muslim diaspora:امریکہ میں ماہ رمضان
میری تعلیم اس سمسٹر میں مکمل ہوجائے گی، لہٰذا لبیک میں شاید یہ میری آخری عید ہو سکتی ہے۔ میری آرزو ہے کہ یہ عید میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ مناؤں اور ان سے تجدید ِ ملاقات کروں۔ ملازمت حاصل کرنے کے لیے میں اس مقدس مہینے میں دعا کروں گا جو میری پیشہ ورانہ زندگی کا اگلا سب سے اہم قدم ہے۔ میں اللہ تعالی کی تمام نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
* بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
—بھارت ایکسپریس
سردی کی لہر کی وجہ سے دہلی پر دھند کی ایک تہہ چھائی ہوئی ہے۔…
ڈلیوال کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے صحافیوں کو بتایاکہ ان کے ہاتھ پاؤں…
سنبھل میں یو پی پی سی ایل کے سب ڈویژنل افسر سنتوش ترپاٹھی نے کہاکہ…
حادثے کے فوری بعد پولیس نے ڈمپر ڈرائیور کو گرفتار کر لیاہے۔ پولیس کے مطابق…
یہ انکاؤنٹر پیلی بھیت کے پورن پور تھانہ علاقے میں ہواہے۔پولیس کو اطلاع ملنے کے…
اللو ارجن کے والد نے کہا کہ فی الحال ہمارے لیے کسی بھی چیز پر…