بھارت ایکسپریس۔
تحریر: مریم حارث، حشام بھٹی، ہانا سچدیوا اور موسیٰ سبرامنیم
اردو زبان و ادب کے پہلے سال کے طلبہ کی حیثیت سے اس زبان کے مطالعہ نے ہمیں ایک دوسرے کےعلاوہ جنوبی ایشیا ئی خطے کی مالامال ثقافت کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے میں مدد کی ۔ اپنے تعلیمی سال کے دوران ہم نے اپنے کلاس روم میں جنوبی ایشیائی شناخت کی مسرتوں کے ساتھ اس کی گہرائی اور گیرائی کوبھی دریافت کیا۔
ہماری جماعت کا ہر طالب علم مختلف تجربات اور طرزِ عمل کے ساتھ ایک مختلف ثقافتی پس منظر کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اردو کلاسوں نے ہمیں اپنی شناخت کی باز یافت کرنے اور اردو کو سیکھنے کے عمل میں مشترکات کی جستجو کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔
تاریخ اور ثقافت
ہم نے اردو کا خوبصورت رسم الخط سیکھا اوریہ سیکھا کہ اس کی تاریخ جنوبی ایشیا کی مالا مال ثقافت سے کس طرح جڑی ہوئی ہے۔ شعبہ ایشیائی زبان و ادب کے ہمارے پروفیسر جمیل احمد اپنے بچپن کی کہانیاں سنایا کرتے ۔ یوں گویا زبان زندہ ہو جایا کرتی۔ وہ ہمیں بھی اپنی اپنی کہانیاں اردو میں شیئر کرنے کی ترغیب دیا کرتے۔
کلاس سے باہر ہم دوپہر کے کھانے پرملتے ، مختلف اقسام کے کھانے ساجھا کرتے اور سیئٹل میں واقع کئی جھیلوں کے کنارے کرکٹ، گیند بازی اور کینوئنگ پر ایک دوسرے سے رابطے قائم کرتے۔ اس طور پر ہم ایک مضبوط کمیونٹی بن گئے ۔ یہ دیکھنا دل کو چھولینے والا ہے کہ ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح ایک دوسرے کو اپنی دلچسپیوں میں شریک کیا اور کمزوریوں کا گواہ بنایا۔ کلاس کے اندر اور باہر ایک ساتھ وقت گزاری نے ہمیں سال کے خاتمے تک ایک مربوط گروپ کی شکل دے دی۔
ایک سنگم
گذشتہ ایک سال کے دوران ہماری اردو کلاس نے ہمیں اپنی کلاسوں سے باہر جنوبی ایشیائی برادریوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ مثال کے طور پر ہم نے سال کے آخر تک اردو شاعری کے بارے میں اتنا سیکھ لیا کہ ہم واشنگٹن یونیورسٹی کیمپس میں عید کے موقع پر سیئٹل ادبی محفل میں شرکت کرنے اور اس کی میزبانی کرنے کے قابل ہو گئے۔ یہاں ہم نے اپنی پسندیدہ نظمیں پڑھیں اور سیئٹل سے تعلق رکھنے والے اردو شاعری کے شوقین افراد سے ملاقات کی۔ ہم نے اردو شاعری کی ثقافت کے تفریحی اور فرحت بخش ماحول کے بارے میں بہت سنا تھا ۔ اس طرح کے ماحول میں ہمارا خیر مقدم ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات تھی۔
سال کے آخر میں ہماری کلاس نے جنوبی ایشیائی ثقافت کے جشن میں شرکت کی۔ ہم نے اپنے جنوبی ایشیائی لباس پہنے، لذیذ کھانا کھایا، مقبول موسیقی سنی اور براہ راست رقص کا جلوہ دیکھا۔
اور یہ سب کچھ پروفیسر جمیل صاحب کے بغیر ممکن نہ تھا۔ انہوں نے ہمیں توجہ کے ساتھ پڑھایا اور ہمارے اندر اردو زبان کے تئیں ایک جذبہ پیدا کردیا۔وہ بغیر جھجھک کے ہماری کسی بھی مشکل کا حل تلاش کیا کرتے۔ ہم غلطیاں کرتے تو وہ کہا کرتے’’ غلطیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔‘‘ ہم سب پروفیسر جمیل کے اور ان کی کلاسوں کے مشکور ہیں کہ جن کی بدولت اس سال ہمیں اتنی خوشیاں ملیں۔
مریم حارث، حشام بھٹی، ہانا سچدیوا اور موسیٰ سبرامنیم سیئٹل میں واقع یونیورسٹی آف واشنگٹن کے طلبہ ہیں۔
بشکریہ سہ ماہی اسپَین، شعبہ عوامی سفارت کاری ، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔
دہلی ہوائی اڈے کے حکام نے کہا کہ کم ویزیبلٹی کے چیلنجوں سے مؤثر طریقے…
صدر مملکت آصف علی زرداری نے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی مذمت…
دہلی ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں اروند کیجریوال کے خلاف نچلی عدالت میں…
عالمی فوجداری عدالت کے ججوں نے نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ…
شاہ رخ خان کے 1980 کی دہائی کے مشہور شو فوجی کی جدید موافقت ’فوجی…
فلسطینی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا…