اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل جب تک حماس دہشت گردوں کے خلاف جیت حاصل نہیں کرلیتا، تب تک اسے غزہ پٹی میں جنگ جاری رکھنے سے کوئی نہیں روکے گا۔ وہیں اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن نے زور دے کر کہا ہے کہ اس مرحلے پر جنگ بندی پراتفاق کرنا ایک غلطی ہوگی اوراسرائیل عالمی برادری کی حمایت کے ساتھ یا کے بغیر حماس کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا۔ کوہن نے کہا کہ “اسرائیل حماس کے خلاف جنگ جاری رکھے گا، چاہے بین الاقوامی حمایت ملے یا نہ ملے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ مرحلے پرجنگ بندی حماس دہشت گرد تنظیم کے لئے ایک تحفہ ہوگی اوراس سے اسرائیل کی آبادی کو دوبارہ خطرہ لاحق ہوگا”۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے منگل کے روزخبردارکیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پراندھا دھند بمباری کی وجہ سے عالمی برادری کی حمایت کھونا شروع کر دیا ہے۔ جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بھی اپنے طرزعمل اوراپنی حکومت کوتبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت نے کہا کہ وہ دو ریاستی حل نہیں چاہتی۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں 18,400 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اس میں بیشترخواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کے 24 لاکھ لوگوں میں سے 19 لاکھ لوگ جنگ کی وجہ سے بے گھرہوچکے ہیں یا نقل مکانی کرچکے ہیں۔
جنگ کے درمیان حماس سربراہ اسمٰعیل ہانیہ نے کہا کہ اسرائیلی حملے کو روکنے کے لئے ہم کسی بھی تبادلہ خیال اور پہل پر بحث کرنے کے لئے تیارہیں۔ یہ ویسٹ بینک اور غزہ پٹی دونوں میں فلسطین کے لوگوں کو واپس اپنے گھروں میں جانے کے لئے دروازہ کھول سکتا ہے۔
جنرل اسمبلی کی قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں
اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان بین ڈورنے کہا کہ “امریکہ اس فلسطینی کیمپ کومضبوط کرنا چاہتا ہے جوتنازعہ کا حل چاہتا ہے۔ نہ صرف اسرائیل اورامریکہ کی خاطربلکہ ان عرب ممالک کی خاطر جو سلامتی اوراستحکام چاہتے ہیں۔ وہ خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی صلاحیتوں کو کم کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں”۔ اسرائیلی ترجمان نے جنگ بندی کے حق میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی حمایت کھودی ہے۔انہوں نے کہا کہ “جنرل اسمبلی میں 53 اسلامی اورعرب ممالک شامل ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ ممبران مسلمان اورعرب ممالک ہیں۔ وہ ویسے ہی اسرائیل کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیروابستہ ممالک شامل ہوتے ہیں، جن کا موقف پہلے سے معلوم ہوتا ہے”۔