غزہ جنگ بندی کی ایک امید جو امریکہ نے پیدا کی تھی اب وہ ایک سازش کا حصہ نظرآنے لگی ہے۔اور اس سازش کو خود حماس نے بے نقاب کردیا ہے،یہی وجہ ہے کہ حماس نے امریکی معاہدے میں چند اہم نکات میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے فی الحال اس جنگ بندی کے مسودے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔ حماس ذرائع نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کی تجویز پر قطری اور مصری بھائیوں کے ذریعے ہمارا جواب موصول ہونے کے بعد اب گیند اسرائیلی کورٹ میں آ گئی ہے اور اسرائیل اس کا مطالعہ کر رہا ہے۔ حماس اور اسلامک جہاد کے ایک مشترکہ وفد نے قطر میں وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی سے ملاقات کے دوران فلسطینی گروپ کے ردعمل کے بارے میں قاہرہ کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
حماس کے ذرائع نے بتایا کہ ہمارے سامنے پیش کی گئی امریکی تجویز میں پائیدار جنگ بندی ہے نہ ہی غزہ کی پٹی سے مکمل اسرائیلی انخلا شامل ہے،یہ ایک سازش ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ تین مراحل کے درمیان باہمی ربط اور ٹائم ٹیبل بھی موجود نہیں ہے۔ یہ 42 دنوں کے لیے جنگ بندی ہے جس میں متعدد قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ کچھ اہل علاقوں سے دشمن کا انخلا شامل ہے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں جنگ کا مستقل اور پائیدار خاتمہ اور غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا کا کہا گیا ہے۔حماس تحریک کے ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں 18 سال سے کم عمر اور 50 سال سے زیادہ عمر کے قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ جنگ بندی شامل ہے۔ اس میں زندہ یا مردہ 33 اسرائیلی قیدی رہا کرنے اور ہر ایک کے بدلے 10 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا کہا گیا ہے۔
حماس کے ذرائع نے نشاندہی کی کہ تحریک حماس عمر قید اور اعلیٰ سزاؤں والے کسی بھی فلسطینی قیدی پر اسرائیل کو ویٹو دینے سے انکار کرتی ہے۔ یہ مسئلہ تبادلے کے عمل کے دوسرے مرحلے میں شروع ہوتا ہے۔ذرائع نے انکشاف کیا کہ تحریک نے ترامیم کے ساتھ نئے ممالک کی شمولیت کا مطالبہ کیا جو معاہدے کے نفاذ کی صورت میں اس کے ضامن ہوں گے۔ نئے ضامنوں میں چین، روس اور ترکیہ کی شمولیت درکار ہوگی لیکن واشنگٹن نے روس اور چین کو شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تل ابیب نے ترکیہ کے الحاق سے انکار کر دیا، لیکن تحریک ایک شرط کے طور پر اسے مسترد کئے جانے پر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے بدلے میں ہم تحریری ضمانتیں حاصل کریں گے کہ معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے گا اور اقوام متحدہ کو اس سے آگاہ کیا جائے گا۔
ادھر دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کی توقع نہیں رکھتے، جبکہ عالمی حمایت یافتہ امریکی تجویز کو اسرائیل یا حماس نے مکمل طور پر قبول نہیں کیا ہے۔بائیڈن نے بتایاکہ اٹلی میں گروپ آف سیون کے سربراہی اجلاس میں بین الاقوامی رہنماؤں نے جنگ بندی پر تبادلہ خیال کیا ہے، لیکن جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا جلد ہی جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے گا، تو بائیڈن نے سادہ سا جواب دیا، “نہیں۔وہیں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اس سے قبل جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ حماس کی پیش کی گئی کچھ تبدیلیاں” مناسب اور معمولی” ہیں اور ان پر عمل کیا جا سکتا ہے، جب کہ دوسری تبدیلیاں صدر جو بائیڈن کی طرف سے تفصیلی طور پر بیان کیے گئے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے توثیق کردہ پیرامیٹرز کے مطابق نہیں ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…