مصنفہ ۔ پارومیتا پین، معاون پروفیسر، گلوبل میڈیا اسٹڈیز، یونیورسٹی آف نیواڈا،امریکہ
نندنی ریڈی کے لیے نیویارک شہر میں برنارڈ کالج اعلیٰ تعلیم کی خاطر ایک فطری پسند تھا کیونکہ وہ ایک ایسے ماحول کی خواہشمند تھیں جہاں خواتین کا قائدانہ کردار معمول کی بات ہو۔وہ اپنے فکر وخیال کی سلامتی کے ساتھ اپنی دلچسپی کے گوشوں پر توجہ دینا چاہتی تھیں۔ ریڈی اپنے تجربات کا اشترا ک کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’کولمبیا جیسی مشہور تحقیقی یونیورسٹی سے منسلک ہونے کے ساتھ اپنے کالج کے تجربات کو علمی لحاظ سے سب سے زیادہ یادگار بنانے میں تعاون کرنے والوں کی ایک مضبوط برادری کے ساتھ رہنے کی بات ہی کچھ اورتھی۔‘‘ ریڈی دوسرے سال کی طالبہ ہیں اور وہ سماجیات میں انسانی حقوق پر زیادہ توجہ دینے کے ساتھ میجر کرنا چاہتی ہیں جبکہ پولیٹیکل سائنس میں مائنر کا ارادہ رکھتی ہیں۔
برنارڈ کی طرح امریکہ میں خواتین سے متعلق کالج خواتین کی ترقی اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے وقف ہیں جو مختلف شعبوں میں مطالعے کے لیے قابل قدر انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ تعداد میں یہ ادارے کم ہیں لیکن ان اداروں میں قیادت اور صنفی مساوات کا لحاظ رکھتے ہوئے چیزوں کو سیکھنے کے عمل کو رفتار فراہم کیے جانے کے ساتھ خواتین راہنماؤں اور جدت طرازوں کی اگلی نسل کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
منفرد فوائد
مِسوری کے کوٹی کالج میں انگریزی کی پروفیسر تریشا اِسٹبل فیلڈباخبر کرتی ہیں ’’خواتین کالج ایک محفوظ، معاون ماحول اور نصاب اور کیمپس کا تجربہ دونوں فراہم کرتا ہے جس کی بدولت خواتین حاشیے پر نہیں بلکہ مرکزی دھارے میں رہتی ہیں ۔ اس طرح خواتین خود کو پوری دنیا کے تناظر میں دیکھ پاتی ہیں، خود کو عملی زندگی کے تمام شعبوں کا اہل پاتی ہیں اور اس کے لیے کی جارہی تمام کوششوں کا حصہ بنتی ہیں۔ یہ نہ صرف ان کے اپنے تجربات کی توثیق کرتا ہے بلکہ انہیں اپنے ذاتی مقاصد اور کریئر کے اہداف کے حصول میں رول ماڈل بننے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔‘‘
ہر ۶ طالب علم پر ایک استاد کے تناسب کے ساتھ کوٹی کالج کے اساتذہ اور عملہ طلبہ سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کلاس سے باہر بھی ان کی راہنمائی فرماتے ہیں اور ہر طرح کی مدد کرتے ہیں ۔ اسٹبل فیلڈ کہتی ہیں ’’خواتین طلبہ کو اپنی آواز تلاش کرنے ، خود کو توانائی بخشنے اور مخلوط تعلیمی ماحول میں کامیاب ہونے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں با اختیار بناتے ہیں۔‘‘
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی نائرہ کوٹھاری، جو برنارڈ کالج میں نیورو سائنس میں میجر کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین کے کالج میں تعلیم نے دنیا کو دیکھنے اور بات چیت کرنے کے ان کے انداز کو تبدیل کردیا ہے اور انہیں یہ بھی احساس کرایا ہے کہ اگر مناسب مدد ملے تو ان کی خواہشات کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں’’برنارڈ کے جن سابق طلبہ سے میری ملاقات ہوئی وہ کاروباری افراد، صحافی، رقاصہ، اور بہت کچھ ہیں یعنی تمام افراد مجھے پرجوش اور خود اعتماد ی سے بھرپور ملے۔برنارڈ میں مضبوط ارادوں والی خواتین کی برادری کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں نے یہ سیکھا کہ میں بھی اپنے خوابوں اور خواہشات کی تکمیل کر سکتی ہوں اگر میں یکسوئی کے ساتھ اس پر توجہ دوں۔‘‘
کوٹھاری نے اپنے دو کزنز اور ایک بہن جو کولمبیا خواتین کی اسکواش ٹیم کی رکن ہیں، کو دیکھ کر برنارڈ کا رخ کیا ۔ وہ کہتی ہیں برنارڈ اس چیز کو مشتہر کرتا ہے کہ یہاں اسٹیم شعبہ جات (سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ، ریاضی)میں نہ صرف خواتین کی موجودگی ہے بلکہ تحقیق کے مواقع بھی ہیں ۔ میں امید کرتی ہوں کہ میں ان سے مستفید ہوں گی اور گریجویشن کے بعد اس شعبے میں اپنا کریئر بناؤں گی۔‘‘
خواتین کے کالج اپنے طلبہ کو اس طرح کا نظام فراہم کرتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے میں انہیں رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ سویٹ برائیر کالج کی صدر مریڈِتھ وُو کہتی ہیں’’خواتین یہاں زن بیزار اور دھمکیوں سے عاری ماحول میں داخلہ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ معلومات حاصل کرنے، مقابلہ کرنے، کوشش کرنے اورترقی کرنے کے لیے بالکل آزاد ہوتی ہیں۔‘‘
یہ ایک شاندار موقع ہے۔ ورجینیا کے سویٹ برائیر کالج کی طالبہ اور ٹینس ٹیم کا حصہ رہنے والی حیدرآباد کی نکیتا سِمہم بھاٹلا کا کہنا ہے کہ کالج کے محفوظ اور معاون ماحول نے انہیں اپنے گریڈاور اہداف پر توجہ مرکوز رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میرے تمام دوست تفریح کرنا پسند کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پڑھائی پر بھی توجہ دیتے ہیں۔یہ مجھے ٹینس کھیلتے ہوئے اپنے گریڈپر بھی توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میں کبھی بھی تفریح کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی۔‘‘خواتین کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے فوائد کے بارے میں بات کرتے ہوئے سِمہم بھاٹلا کہتی ہیں “یہ جان کر بے حد تسلی ہوتی ہے کہ آپ کا کیمپس بہت محفوظ ہے اور آپ رات کو دیر تک یہاں گھوم پھر سکتی ہیں۔‘‘
خواتین کے زیادہ ترکالج اگرچہ لبرل آرٹس میں مہارت رکھتے ہیں لیکن ان کالجوں میں اسٹیم اور ہیومینٹیز میں ڈگری حاصل کرنے والی طلبہ کی تعداد بھی کم نہیں ہوتی۔ برنارڈ اور سویٹ برائیر میں عمرانیات،نیورو سائنس، سیاسیات، معاشیات، کمپیوٹر سائنس، رقص یا انجینئرنگ جیسے پروگرام دستیاب ہیں تو دیگر کالج بھی مختلف موضوعات کا اہتمام کرتے ہیں جیسے ویلیسلی کالج میں بشریات، افریقی علوم، کلاسیکی علوم، اور علمی اور لسانی سائنس جیسے مضامین کی پڑھائی کر سکتے ہیں۔
مالی امداد
برنارڈ کالج میں داخلہ اور انتخاب کے شعبے کی ڈائریکٹر روبی بھٹاچاریہ کہتی ہیں کہ برنارڈ کالج، نیو یارک شہر میں واقع کولمبیا یونیورسٹی سے ملحق ہے اور یہ کہ یہ ان چند کالجوں میں سے ایک ہے ’’جو قومیت سے قطع نظر تمام داخلہ لینی والی طالبات کو ضرورت کے مطابق مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔‘‘
کوٹی کالج پی ای او سسٹر ہوڈ کی ملکیت ہے جو امریکہ اور کناڈا میں دو لاکھ دس ہزار سے زیادہ خواتین پر مشتمل ایک فلاحی تعلیمی تنظیم ہے۔ اسٹبل فیلڈ کہتی ہیں ’’۱۵۰ سال سے زائد عرصے سے سسٹر ہوڈ نے مالی عطیات، ایوارڈس، قرضوں اور کوٹی کالج کی قیادت کے ذریعے خواتین کی تعلیم کی حمایت کی ہے۔‘‘ سسٹرہوڈ کا ایک وسیع نیٹ ورک بھی ہے اورکوٹی کی طلبہ اپنی زندگی اور کریئر میں آگے بڑھنے میں اس سے استفادہ کر سکتی ہیں۔
سویٹ برائیر میں سینئر ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر آف ایڈ میشنز اور اسکول کی نامزد عہدیدار شیرون والٹرس بووَر کا کہنا ہے کہ اسکول کے زمانے میں اسکالرشپ اور مالی امدادکا ملنا کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
مختلف مواقع
یہ ادارے گوناگوں طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جو ان اداروں میں تعلیم اور دیگر دلچسپوں کے درمیان ایک مکمل توازن پاتے ہیں۔ خواتین کے کالجوں میں درخواست دینے والی متعدد طالبات نے ان اداروں کا انتخاب کیا کیونکہ یہ ادارے خواتین کو اپنی تعلیمی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں جیسی دیگر دلچسپیوں کی ترغیب دیتے ہیں۔
سمہم بھاٹلا ڈویژن ون اسپورٹس کالج سے جونیئر کے طور پر سویٹ برائیر میں منتقل ہوگئیں کیونکہ تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کھیلوں میں مسلسل بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا مشکل تھا۔ وہ کہتی ہیں’’تعلیم ہمیشہ سے میری ترجیح رہی ہے، اس لیے میں ایک ایسے اسکول میں منتقل ہونے کی کوشش کر رہی تھی جو مجھے کھیلنے کے ساتھ ساتھ اچھی طرح سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے وسائل بھی فراہم کرے۔سویٹ برائیر کے ٹینس کوچ نے اپنی ڈویژن تھری ٹیم کا حصہ بننے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا۔ کیمپس میں آتے ہی مجھے سویٹ برائیر سے محبت ہوگئی اور مجھے یہ چیز پسند آئی کہ یہ کیمپس صرف خواتین کے لیے مخصوص کیمپس ہے۔‘‘
مسا چیوسٹس کی ایمہرسٹ یونیورسٹی میں اسپورٹس مینیجمنٹ میں ایم بی اے / ایم ایس مکمل کرنے والی گریجویٹ طالبہ ایشیتا ٹِبریوال نے ۲۰۱۸ءمیں ماؤنٹ ہولیوک کالج سے گریجویشن کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں’’میں مسابقتی سطح پرکھیلنا جاری رکھنا چاہتی تھی اور اس کے ساتھ ہی اسپورٹس انڈسٹری میں کریئرپر کام کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’لبرل آرٹس کی تعلیم، یونیورسٹی میں ٹینس کا کھیل اور ایتھلیٹک ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ، میں نے سوچا، میرے لیے کھیلوں میں کریئر بنانے کے لیے کافی اہم ہو گا کیونکہ یہ کسی خاتون کے لیے ایک غیر روایتی کریئر کی راہ تھی۔‘‘ فائیو کالج کنزورٹیم کے ذریعہ دستیاب مواقع، خواتین کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے فوائد اور کیمپس میں قائدانہ عہدوں کو حاصل کرنے کے بہت سارے امکانات نے ٹبریوال کے لیے اس بات کی تصدیق کردی کہ مسا چیوسٹس کا نجی لبرل آرٹس خواتین کالج، ماؤنٹ ہولیوک ان کے لیے درست انتخاب تھا۔
درخواستوں کی تیاری
ہر کالج میں ممکنہ طلبہ کی درخواستوں کا جائزہ لینے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ بھٹاچاریہ کہتی ہیں، برنارڈ میں’’کوئی فارمولا نہیں ہے۔ کوئی بھی معیار یا اسکور داخلہ کا تعین نہیں کرتا ہے۔ہم ہر درخواست دہندہ پر ان کی ذاتی خصوصیات، دانشورانہ صلاحیت، اور ان کے اسکول میں نصاب کی سختی کے ساتھ ساتھ برنارڈ میں کامیاب ہونے کی ان کی صلاحیت کے لحاظ سے غور کرتے ہیں۔‘‘
درخواست جمع کرواتے وقت عرضی دینے والے کا میجرس یا مائنرز کے بارے میں غیر یقینی ہونا بھی قابل قبول ہے۔’’حقیقت میں’غیر فیصلہ کن‘ہونا عام طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ درخواست دہندہ کی اپنی بہت ساری دلچسپیاں ہیں اور وہ مستقبل میں مختلف راستوں کا انتخاب کر سکتی ہیں۔ برنارڈ میں داخلہ لینے والی طلبہ عام طور پر اپنے دوسرے سال کے اختتام تک اپنے میجراور مائنز مضامین کا انتخاب کرتی ہیں، لہٰذا طلبہ کے لیے ابتدا میں مختلف کور س میں سے اپنی پسند کے کورس کرنے کے بعد میجر یا مائنر کے مضمون کے انتخاب کے لیے کافی وقت ہوتا ہے۔‘‘
کوٹی کالج کیونکہ خواتین کو ایک عالمی معاشرے کا رکن بننے کے لیے تعلیم فراہم کرتا ہے، اس لیے وہ ایسی طالبات کا متلاشی رہتا ہے جو قیادت، سماجی ذمہ داری، عالمی بیداری اور اپنی فکری اور ذاتی ترقی کی اقدار کے لیے پرعزم ہوں۔ کوٹی سے تعلق رکھنے والی انگریزی کی پروفیسر اسٹبل فیلڈ کہتی ہیں ’’یہ کہا جاتا ہے کہ، ترقی کرنے والی ذہنیت، ٹھوس کام کی اخلاقیات اور دنیا کے بارے میں عام تجسس مضبوط امیدواروں کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘
ممکنہ طلبہ کے لیے جو اس بات سے فکر مند ہیں کہ کسی خواتین کے کالج میں جانے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، بھٹاچاریہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آپ اسے ’’مردوں کی غیر موجودگی‘‘ کے تجربے کے طور پر نہ لیں بلکہ اس کے بارے میں ’’خواتین کی موجودگی‘‘ کے احساس کے طورپر سوچیں۔
وہ کہتی ہیں ’’ اس کے بارے میں غور کریں کہ اپنی تعلیم اور اپنی ذاتی ترقی کے لیے آپ دنیا بھر کی ہوشیار ترین اور سب سے زیادہ خواہشمند خواتین سے گھری ہوئی ہیں جو آپ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں ، تو اس کا نتیجہ کتنا بہتر نکل سکتا ہے۔‘‘
۔۔ بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس ، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
طالبان نے کئی سخت قوانین نافذ کیے ہیں اور سو سے زائد ایسے احکام منظور…
اداکارہ نینتارہ نے سوشل میڈیا پر لکھے گئے خط میں انکشاف کیا ہے کہ اداکار…
بہوجن وکاس اگھاڑی کے ایم ایل اے کشتیج ٹھاکر نے ونود تاوڑے پر لوگوں میں…
نارائن رانے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب مہاراشٹر حکومت الیکشن کے…
تفتیش کے دوران گل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بابا صدیقی کے…
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں کا استعمال احتیاط سے منتخب تحائف…