کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ منگنی کی انگوٹھی ہمیشہ بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں پہنائی جاتی ہے؟
اگر غور کیا تو کبھی اس کی وجہ کے بارے میں سوچا؟
یقین کرنا مشکل ہوگا مگر انگوٹھی کو اس مخصوص انگلی میں پہنانے کی ایک خاص وجہ ہے
اور اسی لیے اسے رنگ فنگربھی کہا جاتا ہے۔
یہ ہزاروں سال پرانی روایت ہے جس کے تحت منگنی یا شادی کی انگوٹھی کو اس مخصوص انگلی میں پہنا جاتا ہے
ماہرین آثار قدیمہ نے دریافت کیا ہے کہ قدیم مصر کے عہد میں بھی لوگ شادی کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے
قدیم روم اور یونان میں بھی اس طرح کی تاریخ ملتی ہے
تو پھر بائیں کی چوتھی انگلی کو ہی اس مقصد کے لیے کیوں منتخب کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق زمانہ قدیم میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں موجود رگ سیدھی دل تک جاتی ہے۔
اس زمانے میں دل کو ہمارے جذبات کا مرکز تصور کیا جاتا ہے تو قدیم روم میں اس رگ کو محبت کی رگ کہا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ شادی یا منگنی کی انگوٹھی کو بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں
اس تصور کے ساتھ پہنایا جاتا تھا کہ شریک حیات سے تعلق مضبوط ہوگا۔
مختلف ثقافتوں میں بائیں کی جگہ دائیں ہاتھ میں منگنی یا شادی کی انگوٹھی کو پہنایا جاتا تھا، تاہم انگلی چوتھی ہی ہوتی ہے۔
مگر اب ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ انسانوں میں ایسی کوئی رگ ہوتی ہی نہیں اور دل بس خون پمپ کرنے والا عضو ہے۔
اس کے باوجود صدیوں سے چلی آ رہی اس روایت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اب بھی منگنی یا شادی کی انگوٹھی کو بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں ہی پہنا جاتا ہے۔
درحقیقت اب بھی بیشتر افراد کا یہی ماننا ہے کہ بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی سے رگ دل تک جاتی ہے اور وہاں انگوٹھی پہننا رومانوی جذبات کا اظہار کرتا ہے۔