علاقائی

مدراس یونیورسٹی کی ”انجمن ابنائے قدیم برائے اردو“ کا سالانہ اجلاس اختتام پذیر

چنئی۔ یوں تو مدراس یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کے ابنائے قدیم کی اپنی الگ الگ انجمنیں ہیں، مگر پوری یونیورسٹی میں “انجمن ابنائے قدیم برائے اردو” کو جو منفرد مقام حاصل ہے وہ کسی دوسری انجمن کو نہیں، ابنائے قدیم اردو کی یہ انجمن بہت ہی فعال اور متحرک انجمن ہے.اس کے زیر اہتمام ہر سال اکتوبر کی دوسری تاریخ کو ایک سالانہ اجلاس نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں ابنائے قدیم و جدید کے علاوہ مشہور ادباء و سخنور حضرات کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، اور اردو کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل پر بھی تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
اپنی اسی روایت کو باقی رکھتے ہوئے “انجمن ابنائے قدیم برائے اردو” کے زیر اہتمام اسی دو اکتوبر بروز پیر یونیورسٹی کے آڈیٹوریم ہال میں ایک شاندار سالانہ اجلاس کا انعقادعمل میں آیا۔ اس موقع سے نظامت کی ذمہ داری  ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی نے بحسن و خوبی نبھائی.صدر اجلاس کی حیثیت سے مدراس یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چیئرمین ڈاکٹر امان اللّہ ایم بی تشریف فرما تھے، وہیں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مظفر علی شہ میری جلوہ افروز تھے تو بطور مہمان اعزازی پروفیسر قاضی حبیب احمد سابق صدر شعبہ عربی، فارسی و اردو مدارس یونیورسٹی بھی شامل اجلاس رہے ۔
اجلاس کا باضابطہ آغاز ڈاکٹر محمد ریاست اللہ قاسمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، نعت نبی ﷺ سید اکبر حسین قادری نے اور ترانہ جامعہ مدراس مولانا محمد اسجد نے پیش کی۔ اس حسین موقع سے انجمن ابنائے قدیم برائے اردو کی جانب سے ماہانہ ملت نشان منزل کے مدیر پی ایس عبد الباری مخلص کو “خادم اردو ایوارڈ برائے 2023” نوازا گیا .بعدازاں ڈاکٹر حیات افتخار نائب صدر انجمن ابنائے قدیم اردو نے مدراس یونیورسٹی کے شعبہ عربی ،فارسی و اردو کےسابق صدر  ڈاکٹر نجم الہدی کی وفات حسرت آیات پر قرارداد پیش کرتے ہوئے تعزیتی کلمات ادا فرمایا۔ تاہم اس موقع سے خطبہ استقبالیہ انجمن ابنائے قدیم اردو کے خازن ڈاکٹر کلیم اللہ نے پیش فرمایا. ساتھ ہی معتمد انجمن ابنائے قدیم اردو ڈاکٹر پروین فاطمہ نے ہدیہ تشکر بھی پیش کیا.
اجلاس کے آغاز میں مہمان خصوصی پروفیسر مظفر علی شہ میری نے سامعین سے اہم خطاب فرمایا، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مہمان خصوصی نے انجمن ابنائے قدیم کے ذمہ داران کو ناصحانہ انداز میں گویا ہوتے ہوئے فرمایاکہ آپ لوگوں کو ہر قسم کے چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے سبھوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور اس انجمن کو مزید فعال ومتحرک بنانا ہے.
ڈاکٹر نجم الہدی کی جدائی کو یاد کرتے ہوئے موصوف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر نجم الہدی طلبہ عزیز کے لیے بہت مخلص انسان تھے. اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مہمان خصوصی نے سامعین کے روبرو کہا کہ میں ایک مرتبہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے رات کے کوئی ڈیڑھ بجے ان کے پاس پہنچا، غیر مناسب وقت کے باوجود بھی انہوں نے ذرا بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ بلا چوں چرا رات کے ساڑھے تین بجے تک ہمارے مقالے کی تصحیح فرماتے رہے۔ طلبہ سے انکی انسیت اور محبت کی یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے. بعد ازاں ناظم جلسہ نے مہمان اعزازی ڈاکٹر قاضی حبیب کو دعوت اسٹیج دی، انہوں نے بھی اس موقعے سے اپنے استاد ڈاکٹر نجم الہدی کو یاد کیا. پروفیسر قاضی حبیب نے اپنے خطاب میں بتایاکہ مرحوم بہت ہی بامروت و بااخلاق شخصیت کے مالک تھے ، بہت نپی تلی گفتگو کیا کرتے تھے۔ تاہم انجمن ابنائے قدیم کی کارکردگیوں پر اپنی دلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے باہمی آداب و اخلاق کی پابندیوں میں رہتے ہوئےآگے بڑھنے کی ترغیب دلائی۔
اس کے بعد صدارتی خطاب کےلیے صدر اجلاس ڈاکٹر امان اللّہ ایم بی سامعین سے روبرو ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس “انجمن ابنائے قدیم برائے اردو ” کی نشاطات سے متاثر ہو کر بہت سارے شعبوں کے اعلیٰ ذمہ داران نے بھی اپنے یہاں انجمن ابنائے قدیم کی بنیاد رکھی ہے،جو کہ ہمارے لیے یہ ایک خوش آئند بات ہے . اپنے صدارتی خطاب میں صدر اجلاس نے کہا کہ سمندر کو دور سے اور قریب سے دیکھنے میں فرق ہوتا ہے،پاس سے سمندر کچھ اور دکھتا ہے جبکہ دور سے اس کا رنگ اور ہی نظر آتا ہے، دیکھنے والے جب پاس ہوں تو ان کی نظروں میں کوئی تفاوت حائل نہیں ہوتا،اسی طرح ہمیں آپس میں قدم سے قدم ملا کر، ایک ساتھ مل جل کر اس انجمن ابنائے قدیم اردو کو اور اردو کے فروغ کے مشن کو مزید استحکام بخشنا ہے.
واضح رہے کہ اس سالانہ اجلاس کے اخیر میں شعبہ اردو کے طلبہ و طالبات کی جانب سے بر کلام ممتاز دکنی شعراء تمل ناڈو کا “تمثیلی مشاعرہ ” بھی پیش کیا گیا۔ جو کہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مشاعرہ تھا۔ سامعین نے اس کو خوب سراہا اور پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔اس تمثیلی مشاعرہ کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر پروین فاطمہ نے بحسن وخوبی نبھائیں۔
جن دکنی شعراء کا تمثیلی کلام پیش کیا گیا وہ کچھ اس طرح ہیں۔
ملا نصرتی کی تمثیل محمد الیاس طالب ایم اے اردو سال اول نے پیش کیا، وہیں حضرت قربی ویلوری کی تمثیل ایم اے اردو سال دوم کے طالب علم سید اکبر حسین قادری نے پیش کی۔ جبکہ حضرت باقر آگاہ کی تمثیل ایم اے اردو سال اول کی طالبہ نسرین نے اپنے مخصوص لب و لہجہ میں پیش فرمائی۔ اگر شریف مدراسی کی بات کی جاۓ تو ان کی تمثیل عزیز احمد طالب ایم اے اردو سال دوم نے ادا فرمایا ، جبکہ دکنی اردو کی آن بان اور شان عبد الغفار قادر مسکین کی تمثیل کلیم اللہ امداد طالب ایم اے اردو سال اول نے ادا فرمائی۔ دکنی اردو کے ایک اور ممتاز شاعر خطیب قادر باشاہ کی تمثیل ایم اے اردو سال دوم کے طالب غوث احمد نے پیش کی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرد شعراء کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ دکنی شاعرات کی نمائندگی میں بھی شعبہ اردو کی تین طالبات نے حصہ لیا۔ اشبمہ آرکائی کی تمثیل پی ایچ ڈی کی ریسرچ اسکالر نازیہ نے تو وہیں عاجزہ مدراسی کی تمثیل طاہرن شیخ نے پیش کی اور اخیر میں بیگم حیا مدراسی کی تمثیل ایم فل کی ریسرچ اسکالر تارہ شیخ کے کلام کے ساتھ اس تمثیلی مشاعرے کے اختتام کا اعلان ہوا۔ اس سالانہ اجلاس میں ڈاکٹر نعیم الرحمن وائس چیئرمین تمل ناڈو اردو اکاڈمی، اردو ڈیولپ آرگنائزیشن ریاست تمل ناڈو و کرناٹک کے صدر ڈاکٹر عبیداللّہ بیگ، جسٹس بشیر احمد سعید کالج چنئی کے سکریٹری  فیض الرحمٰن سعید کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں محبان اردو رونق بزم تھے۔

بھارت ایکسپریس۔

Bharat Express

Recent Posts

Parliament Winter Session: پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 25 نومبر سے 20 دسمبر 2024 تک چلے گا

آنے والے سرمائی اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ 26 نومبر کو یوم دستور…

37 mins ago