سیاست

Babri Masjid : بابری مسجد انہدام  سانحہ سے یوپی میں کانگریس کی  زمین کیا ختم ہوگئی ہے ؟

بابری مسجد کے انہدام کے بعد اتر پردیش میں کانگریس سیاسی طور پر ختم ہو گئی۔ کیونکہ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔ انہدام کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم P.V.Narasimha Raoاور کانگریس کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔اس کے سانح   کے بعد  پارٹی ریاست میں دوبارہ اقتدار حاصل نہیں کر سکی، جہاں اس نے 1977 تک تقریباً بلا مقابلہ حکومت کی۔ پہلے اس کی جگہ سماج وادی پارٹی (ایس پی)، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے لی اور پھر بی جے پی غالب بن کر ابھری۔ ان پارٹیوں نے کانگریس کے ووٹ بینک میں نقب لگائی۔

 سینئر کانگریس لیڈر سلمان خورشید(Salman Khurshid)نےاپنی کتاب ‘سن رائز اوور ایودھیا نیشن ہڈ ان آور ٹائمز  میں 1992 کے بعد سے سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں کی تفصیل دی ہے۔

1996 میں انہدام کے بعد پہلے عام انتخابات ہوئے تو کانگریس اقتدار سے باہر  ہوگئی اور 13 دنوں کے لیے پہلی بار بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن اس کے بعد بی جے پی بابری مسجد  سانحہ کی وجہ سے مضبوط ہوئی۔ پارٹی نے 6 دسمبر 1992 کے اس واقعہ  کا فائدہ  اٹھایا۔

خورشید  عالم نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ کس طرح نرسمہا راؤ نے انہدام کے ایک دن بعد وزراء کی کونسل کی میٹنگ اچانک یہ کہتے ہوئے ختم کر دی کہ “براہ کرم مجھ سے ہمدردی کریں۔”

تاہم کانگریس کو اتر پردیش اور بہار میں مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ملی اور ایس پی نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ملائم سنگھ کو ‘مولانا’ کا خطاب دیا گیا۔

ایس پی کے لیے ایک مضبوط علاقائی پارٹی کے طور پر ابھرنے کی راہ ہموار ہوئی اور یہ پارٹی ریاست کے مسلمانوں میں مقبول ہوئی اور تین بار اقتدار میں واپس آئی۔

 کانگریس نے بہت محنت کی لیکن مسلم کمیونٹی کا اعتماد حاصل نہیں کر سکی۔

انہدام کے بعد نرسمہا راؤ نے کلیان سنگھ حکومت کو برطرف کر دیا اور ایک ہفتہ بعد ہماچل پردیش، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا۔برطرفی کے بعد، جب 1993 میں ریاستی انتخابات ہوئے، بی جے پی اتر پردیش میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، اور راجستھان میں اقتدار میں واپس آگئی۔کانگریس ہماچل پردیش میں اقتدار میں آئی اور ایم پی میں بی جے پی کے متبادل کے طور پر ابھری، جہاں اس نے 1993 سے 2003 تک حکومت کی قیادت کی۔ اس کے بعد 2018 میں ایک سال کو چھوڑ کر بی جے پی ریاست میں حکومت کر رہی ہے۔اتر پردیش میں کانگریس کی حالت بدستور قابل رحم ہے۔ ریاست میں اس کے پاس صرف ایک ایم پی (سونیا گاندھی) اور دو ایم ایل اے ہیں۔ کانگریس کو اب امید ہے کہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اسے اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد دے گی۔لیکن اصل لٹمس ٹیسٹ 8 دسمبر کو ہے، جب گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

۔بھارت ایکسپریس

Bharat Express

Recent Posts

KK Menon on cinema and entertainment: سنیما اور انٹرٹینمنٹ ​​پر کے کے مینن نے کہا، ’یہ بزنس آف ایموشن ہے‘

اداکار کے کے مینن آنے والی اسٹریمنگ سیریز ’سیٹاڈیل: ہنی بنی‘ میں نظر آئیں گے،…

6 hours ago

India vs New Zealand: سرفراز خان کا بلے بازی آرڈر بدلنے پریہ عظیم کھلاڑی ناراض، گمبھیر-روہت پرلگائے الزام

نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹسٹ میچ کی پہلی اننگ میں سرفراز خان کچھ خاص…

7 hours ago

کانگریس پرالزام حقیقت سے دور… مفت اسکیم سے متعلق وزیراعظم مودی کے طنزپرپرینکا گاندھی کا پلٹ وار

کانگریس صدر ملیکا ارجن کھڑگے نے کرناٹک میں وزیراعلیٰ سدارمیا اورنائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیوکمارکے…

8 hours ago