قومی

Ustad Bismillah Khan: ‘میری گنگا کہاں سے لاؤ گے’، جب استاد بسم اللہ خان کو امریکہ میں آباد ہونے کی ہوئی تھی پیشکش

Ustad Bismillah Khan: موقع ہندوستان کی آزادی کا تھا اور جگہ تھی دہلی کا تاریخی لال قلعہ۔ 15 اگست 1947 کو ہندوستان نے 200 سال کی غلامی کے بعد برطانوی راج سے آزادی حاصل کی۔ اس تاریخی موقع پر ایک ایسے شخص کو بھی مدعو کیا گیا جس نے لال قلعہ پر شہنائی بجا کر ہندوستان کی آزادی کو اور بھی یادگار بنا دیا۔ ہم استاد بسم اللہ خان کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے موقع پر دہلی کے لال قلعے کی فصیل سے شہنائی بجائی تھی۔ یہی نہیں، انہوں نے ملک کے پہلے یوم جمہوریہ کے موقع پر بھی اپنی شہنائی سے لوگوں کو لطف اندوز کیا۔ استاد بسم اللہ خان ہی تھے جنہوں نے اپنی شہنائی کے مدھر لہجے سے ہندوستان کو نہ صرف ملک بلکہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر متعارف کرایا۔ یہ استاد بسم اللہ خان کی مہارت تھی جس نے شہنائی کو ہندوستان میں زندہ رکھا۔

بنارس سے تھی محبت

استاد بسم اللہ خان کو بنارس سے بہت محبت تھی۔ دوردرشن پر ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر کوئی سریلی شخصیت بننا چاہتا ہے تو وہ بنارس آئے اور گنگا کے کنارے بیٹھ جائے، کیونکہ بنارس کے نام میں ہی ’’رس‘‘ آتا ہے۔ بسم اللہ خان نے کہا تھا، ’’چاہے وہ کاشی وشوناتھ مندر ہو یا بالاجی مندر ہو یا گنگا گھاٹ، یہاں شہنائی بجانے میں الگ ہی سکون ہے۔‘‘

جوہی سنہا کی کتاب “بسم اللہ خان – بنارس کے استاد” ہندوستان کے سب سے بڑے فنکاروں میں سے ایک، بسم اللہ خان کے خاندان اور موسیقی سے ان کی محبت کو روبرو کراتی ہے۔ اس کتاب میں بسم اللہ خان کے ڈمراؤں جیسے چھوٹے سے شہر سے بنارس اور پھر دنیا تک کے سفر کو بیان کیا گیا ہے۔

گنگا جمنی ثقافت کو فروغ دیا

جب بسم اللہ خان صرف 6 سال کے تھے، وہ وارانسی میں اپنے مامو علی بخش کے پاس شہنائی کے سبق کے لیے آئے۔ ان کے استاد مامو کاشی وشوناتھ مندر میں شہنائی بجاتے تھے۔ یہیں سے انہوں نے شہنائی کو اپنا پہلا پیار بنایا۔ وہ روزانہ چھ گھنٹے شہنائی کی مشق کرتے تھے۔ انہوں نے پہلی بار 1937 میں آل انڈیا میوزک کانفرنس میں شہنائی کا کردار ادا کیا۔ یہاں سے شروع ہونے والا سلسلہ آگے بھی جاری رہا اور انہوں نے شہنائی کی آواز کو پوری دنیا میں اس طرح پھیلایا کہ سننے والے مسحور ہو گئے۔

بسم اللہ خان نے گنگا جمنی ثقافت کو بھی فروغ دیا۔ وہ بابا وشوناتھ مندر جاتے ہوئے شہنائی بجاتے تھے۔ وہ گنگا کے کنارے بیٹھ کر بھی گھنٹوں ریاض کیا کرتے تھے۔ تہوار کوئی بھی ہو، خان صاحب کی شہنائی کے بغیر ادھورا تھا۔ ان کے لیے موسیقی ان کا مذہب تھا۔

یہ بھی پڑھیں- Bharat Bandh: نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر نے بھارت بند پر کہا – سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے

امریکہ میں آباد ہونے کی پیشکش ملی

انہوں نے امریکہ، کینیڈا، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران، عراق، مغربی افریقہ جیسے ممالک میں شہنائی کا کردار ادا کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیں امریکہ میں آباد ہونے کی پیشکش بھی کی گئی۔ لیکن وہ ہندوستان چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ بنارس چھوڑنے کے خیال نے بھی انہیں پریشان کر دیا۔ بسم اللہ خان نے یہ کہہ کر یہ تجویز مسترد کر دی تھی کہ امریکہ میں میری گنگا کہاں سے لائیں گے۔

ہندوستان کے چاروں اعلیٰ ترین شہری اعزازات سے نوازا گیا

استاد بسم اللہ خان کو ہندوستان کے چاروں اعلیٰ ترین سول اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ انہیں پدم شری (1961)، پدم بھوشن (1968)، پدم وبھوشن (1980) اور 2001 میں بھارت رتن سے نوازا گیا۔

-بھارت ایکسپریس

Mohd Sameer

Recent Posts

Two houses collapse in Mainpuri: اترپردیش کے مین پوری میں شدید بارش کی وجہ سے گرے دو مکان، پانچ افراد کی گئی جان

مقامی باشندے سنیل کمار نے کہا، ’’مجھے صبح چھ بجے اس واقعہ کی اطلاع ملی۔…

1 hour ago