کیرالہ ہائی کورٹ نے غورکیا ہے کہ جن علماء کے پاس کوئی قانونی علم نہیں ہے، ان پر عدالت کی جانب سے مسلمانوں پر لاگو ہونے والے پرسنل لا سے متعلق قانون کے کسی موضوع پر فیصلہ کرنے کے لیے بھروسہ نہیں کر سکتے ۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت ایسے علماء کی رائے نہیں سن سکتی، جن کے پاس کوئی ویلڈ ڈگری نہیں ہے۔ بلا شبہ اسلامی عقائد اور انکے قانون میں علماء کی رائے عدالت کے لیےضروری ہے اور عدالت بھی ان کے عقائد و جزبات کی پرواہ کرتی ہے ۔
عدالت نے یہ حکم اس درخواست پر جاری کیا جس میں کورٹ سے اپنے سابقہ فیصلے پر ایک نظر دوبارہ ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی۔ متعلقہ فیصلہ میں کہاگیا تھا کہ مسلمان بیوی کے کہنے پر نکاح ختم کرنے کا حق قرآن پاک کی طرف سے ملا ہے ۔اور اسکا شوہر کی رضا مندی سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ اس پر نظرثانی کی درخواست شوہر کی طرف سے کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اگرچہ ایک مسلم خاتون کو اپنی مرضی سے طلاق مانگنے کاحق حاصل ہےجسکو اسلام میں خلع کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے شوہر کو ’طلاق‘ کا حق ہے۔
اگرچہ قرآن خواتین کو خلع حاصل کرنے کا حق دیتا ہے، جس کا ذکر آیت 2:229 میں ہے، لیکن اس کے لیے کوئی طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ ایسی صورت میں وکیل نے عرض کیا کہ خلع کا صحیح طریقہ حدیث سے ثابت ہو سکتا ہے۔ شوہر کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ قرآن کی آیات سیکولر عدالتوں کے فیصلے کا بدل نہیں بن سکتیں۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…