قومی

Bringing Change through Teaching and Activism: تدریس اور فعالیت سے تبدیلی لانا

ڈاکٹر سید سلیمان اختر

سیّد مبین زہرا دہلی یونیورسٹی  کے آتما رام سناتن دھرم کالج میں تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسرہیں۔ وہ ایک مصنفہ، کالم نگار، کارکن، تجزیہ نگاراورمقررہ بھی ہیں۔

۲۰۱۷ء میں زہرا نے امریکی وزارت خارجہ کے  بین الاقوامی  وزیٹرلیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کی جس کا عنوان تھا ’’انسدادِ آن لائن پُرتشدد انتہا پسندی۔‘‘ ۲۰۱۹ء میں انہوں نے آئی وی ایل پی  کے ایک اورپروگرام ’’قائدین کو قیادت کرنے دیں۔‘‘ میں  بھی شرکت کی۔ زہرا کو ان کی اردواور ہندی میڈیا میں صحافتی خدمات  کے لیے اب تک دولاڈلی میڈیا انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔

واضح رہے کہ مبین زہرہ اردو روزنامہ انقلاب کے لیے ہفت واری کالم ’’سرگوشیاں‘‘ اورہندی روزنامہ ’’جن ستّا‘‘ کے لیے پندرہ روزہ کالم ’’سمانترسنسار‘‘ تحریرکرتی ہیں۔ ان کے مضامین کا مطمح نظرمعاشرتی اورصنفی مسائل ہوتا ہے۔ ستمبرمیں عالمی یومِ امن کے موقع پر زہرا نے  نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹرمیں آرٹ نمائش کے موقع پراسپَین سے گفتگوکی۔ پیش خدمت ہیں چند اقتباسات۔

بحیثیت ایک معلّمہ اور تجزیہ نگارآپ  خود  کو کس طرح دیکھتی ہیں؟

میں سمجھتی ہوں کہ بحیثیت ایک معلّمہ میرے اوپر یہ بڑی  ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں نوجوانوں میں نہ صرف ان کے مضمون کی تعلیم دوں  بلکہ ان کی تربیت بھی کروں تاکہ وہ ایک اچھے انسان اور عالمی شہری بن سکیں۔ میں ہر ممکن پلیٹ فارم پرصنفی مساوات پر لکھتی بھی ہوں، اس کی وکالت بھی کرتی ہوں اور اس کے فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں  میں پُر تشدد انتہا پسندی کے خلاف آواز بھی  بلند کرتی رہتی ہوں۔ میں نے اس موضوع پر اپنے کالموں میں  بہت کچھ لکھا بھی ہے ۔نیز قومی اور بین الااقوامی سیمیناروں میں مقالات بھی پیش  کیے ہیں۔

عہد وسطیٰ کی تاریخ ِہند اور میڈیا آپ کا تخصص ہیں۔ آپ کی نظر میں عہد وسطیٰ کے محققین کے لیے اردو زبان کا علم کس طور پرکارگرثابت ہوسکتا ہے؟

گوکہ میں کانوینٹ اسکول سے تعلیم یافتہ ہوں مگرمجھے گھرپراردو، عربی، فارسی اوربنیادی دینیات پڑھانے کے لیے معلّم آیا کرتے تھے۔ان زبانوں کے سیکھنے سے مجھے ان زبانوں کی ثقافت سے بھی واقفیت ہوئی۔ نئی دہلی میں واقع جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی تحقیق میں اردو اور فارسی زبانوں سے واقفیت میرے لیے کافی مددگار ثابت ہوئی۔ اس سے مجھے اپنی تحقیق میں بڑی مدد ملی۔ یہ معاملہ صرف اردو کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کوئی بھی زبان سیکھیں اس سے آپ کو اس کی تاریخ ، ثقافت اور روح سے واقفیت ہوتی ہے۔آپ کو اگر زبان  آتی ہے تو آپ مضمون کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔ میں مراٹھی بھی لکھ، پڑھ اور بول لیتی ہوں۔مراٹھی سے مجھے اپنے تحقیقی کام اور ترسیل دونوں  میں ہی بہت مدد ملتی ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ آپ کو جتنی زیادہ زبانیں آتی ہیں اتنا ہی آپ کا ذہن تحقیق کے لیے وسیع ہوتا ہے۔

اپنے ۲۰۱۷ ءاور ۲۰۱۹ءکے بین الاقوامی وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے تجربات کے متعلق کچھ بتائیں۔

میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ  مجھے دو بارآئی وی پی ایل میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ۲۰۱۹ء میں تو میں نے بہت سارے دیرینہ دوست بنائے۔۲۱ ممالک سے آئے تمام شرکاء ایک ہی زبان بول رہے تھے، انسانیت اورامن کی زبان۔ میں نے ۲۰۱۷ء میں واشنگٹن ڈی سی، فینکس، ٹیمپااورنیویارک سٹی کا سفرکیا۔ ان اسفارسے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ امریکہ مختلف النوع ثقافتوں اورمذاہب کو اپنے اندر سمونے کے اصول پر کس قدر شدت سے کار بند ہے۔ آئی وی ایل پی کے دونوں تجربات کی بدولت میرے دماغ کے دریچے کھلے، علم میں اضافہ ہوا،  میں ایک بہتر انسان بن سکی نیز میرے تدریسی کرئیر میں بھی کافی ترقی ہوئی۔

آپ نے ان تبادلہ پروگراموں سے کیا سیکھا۔ یہ بھی بتائیں کہ یہ چیز بھارت میں آپ کےتحقیقی کام کے لیے کیسے مفید ہے؟

سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ میرا مطمح نظر وسیع ہوا اورجمہوری اقدار(جس کے علم بردارامریکہ اوربھارت دونوں ممالک  ہیں) میں میرا یقین مزیدمضبوط ہوا۔ معاشرت، افراد، ثقافت، مذاہب اورجمہوری اقدار کے متعلق بعض اشکالات تھے جن کا تدارک تبادلہ پروگرام کے دوران بخوبی ہوا۔ میں  نے اپنے تجربات کا اشتراک اپنے طلبہ کے ساتھ کیا اور ان کو ترغیب دلائی کہ وہ بھی ان مسائل پرکام کریں جو ان کہ نظرمیں اہم ہیں۔ مختصراً میں یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ آئی وی ایل پی کی بدولت میں ایک زیادہ باشعور، پراعتماد، اورہوش مند انسان بن کرابھری۔

امیریکن سینٹر میں عالمی یومِ امن کے پس منظر میں ایک آرٹ نمائش کا انعقاد پر کچھ روشنی ڈالیں۔ نیز ،یہ بھی واضح کریں  کہ آرٹ اور ثقافت  امریکہ اور بھارت کے عوام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں کس طرح کام آسکتے ہیں؟

’’امن کی رنگولی‘‘  نامی اس آرٹ نمائش میں فنکاروں نے اپنے تخیلات کو بخوبی پیش کیا۔ مصوری کو ہمیشہ سے ہی زمان  و مکاں  کا آئینہ تصور کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس آرٹ نمائش میں بھی معاصر فنکاروں نے اپنے اپنے طورپر’’امن‘‘کا اظہار کیا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے دانشورانہ تبادلوں کی ضرورت ہے جن میں بھارت اور امریکہ میں مشترکہ جمہوری اقدار کو آرٹ اور مصوری کے ذریعہ سے فروغ دیا جائے۔

تنازعاتی حل یا صنفی مسائل کے میدانوں میں کام کرنے والے نوجوانوں کے  لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

اولاً تو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس میدان میں آگے آنا چاہیے ۔ میں نئی نسل  کے بارے میں کافی پُرامید ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے مجھے لگتا ہے کہ نئی نسل ان مسائل کے تئیں زیادہ سنجیدہ، بیداراورحسّاس ہے۔ نہ صرف یہ اہم ہے کہ ہم نوجوانوں کو ان مسائل سے روشناس کرائیں اوران کی مشاورت کریں بلکہ ان کو قانونی، معاشرتی، اورعملی روڈ میپ بھی تیار کرکے دیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا سکیں۔ میں زور دے کر کہوں گی کہ نوجوانوں کو اسفار، کام، اورتبادلہ خیال کے زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں تاکہ وہ بہتر تبدیلی کا محرک بن سکیں۔

بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

  -بھارت ایکسپریس

Bharat Express

Recent Posts

Hemant Soren Bail: ہیمنت سورین کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچی ای ڈی ، ہائی کورٹ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا

جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے رہنما اور جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو گزشتہ جمعہ…

5 hours ago

Ornate Jewels: :آرنیٹ جیولز ،زیورات: جذبہ، دستکاری، اور خوبصورتی کا سفر

ہمارا عزم، 'زینت،' خوبصورتی، عیش و عشرت، اور اپنے آپ کو بے وقت کے ساتھ…

5 hours ago

Asaduddin Owaisi On PM Modi Russia Visit: پی ایم مودی کے روس پہنچنے پر اسدالدین اویسی نے کیا یہ بڑا مطالبہ

روس دورے پر پہنچے وزیراعظم مودی سے اسدالدین اویسی نے مطالبہ کیا کہ انہیں جنگی…

7 hours ago

Bigg Boss OTT 3: ’میں گھر جانا چاہتی ہوں…‘ وشال کے کمنٹ پر کرتیکا ملک نے کہی یہ بڑی بات

وشال کے تبصرہ پرکرتیکا ملک کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب…

7 hours ago