ملک کے مشہور ومعروف صنعت کار رتن ٹاٹا کی زندگی اور ان کی سادگی پوری دنیا کیلئے ایک مثا ل ہے اور نئی نسل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کیلئے وہ مشعل راہ ہے۔ انہوں نے جس انداز میں اپنی زندگی گزاری اور جس طرح سے کامیابی حاصل کی ،اس کے کئی واقعات آج بھی جگہ جگہ پیش کئے جاتے ہیں ۔ان میں سے ہی ایک واقعہ آج آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔یہ کہانی رتن ٹاٹا کی زندگی کے ایک قیمتی لمحے کی ہے، جسے انہوں نے ایک ریڈیو انٹرویو میں شیئر کیا تھا۔ جب ایک ریڈیو پریزینٹر نے ان سے پوچھا کہ زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ کون سا ہے، تو انہوں نے چار مراحل کا ذکر کیا جن سے وہ گزرے اور آخر کار حقیقی خوشی کا احساس ہوا۔
پہلا مرحلہ
رتن ٹاٹا نے کہا کہ میں نے زندگی میں دولت اور وسائل جمع کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت میں نے سوچا کہ شاید اس سے مجھے حقیقی خوشی ملے گی۔ لیکن اگرچہ میں نے بہت کچھ حاصل کیا، پھر بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کی میں تلاش کر رہا تھا۔
دوسرا مرحلہ
میں نے قیمتی اشیاء جمع کرنے پر توجہ دی۔ میں نے سوچا کہ مہنگی چیزیں مجھے اطمینان بخشیں گی۔ لیکن جلد ہی میں یہ بھی سمجھ گیا کہ ان چیزوں کی چمک اور کشش بھی وقتی ہے۔ یہ بھی مجھے دیرپا خوشی نہ دے سکی۔
تیسرا مرحلہ
اس مرحلے میں میں نے بڑے پروجیکٹس حاصل کیے۔ میں نے انڈیا اور افریقہ میں ڈیزل کی سپلائی کا 95فیصد کنٹرول سنبھال لیا اور ایشیا کی سب سے بڑی سٹیل فیکٹری کا مالک بن گیا۔ لیکن، اس بلندی پر پہنچنے کے بعد بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کی مجھے امید تھی۔
چوتھا اور اہم ترین مرحلہ
اس مرحلے میں حقیقی خوشی کا تجربہ ہوا۔ ایک دن میرے دوست نے مجھے کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیئر خریدنے کا مشورہ دیا۔ میں نے تقریباً 200 وہیل چیئرز خریدیں۔ اس نے مشورہ دیا کہ میں خود ان بچوں کو وہیل چیئر دے دوں، اور میں اس کے ساتھ چلا گیا۔جب میں نے اپنے ہاتھوں سے ان بچوں کو وہیل چیئرز دیں تو ان کے چہروں پر جو خوشی دیکھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ بچے وہیل چیئر پر بیٹھ کر چلنے لگے اور ان کا لطف دیکھ کر مجھے ایک انوکھا سکون محسوس ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں خود فاتح بن گیا ہوں۔جانے کا وقت ہوا تو ایک بچے نے میری ٹانگ پکڑ لی۔ میں نے آہستگی سے اپنا پاؤں چھڑانے کی کوشش کی لیکن بچے نے خالی نظروں سے میری طرف دیکھا اور میرا پاؤں چھوڑنے سے انکار کردیا۔ میں نے جھک کر اس سے پوچھا، “کیا تمہیں کچھ اور چاہیے؟اس بچے نے جو کہا اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اس نے کہاکہ میں آپ کا چہرہ یاد رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ جب میں جنت میں جاؤں اور آپ سے ملوں، میں آپ کو پہچان سکوں اور آپ کا دوبارہ شکریہ ادا کر سکوں۔یہ جواب سن کر میری زندگی کا زاویہ نظر بدل گیا۔ اس دن میں سمجھ گیا کہ حقیقی خوشی دوسروں کو خوش کرنے میں ہے نہ کہ مادی لباس یا دولت میں۔یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی خوشی دینے اور حاصل کرنے کا ذریعہ ہمارے کام اور دوسروں کی بھلائی میں مضمر ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
دھیریندر شاستری نے کہا کہ ہندوستان کے ہندو، آپ کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ…
جنرل وی کے سنگھ نے روٹ کی تعریف کرتے ہوئے اسے دوڑنے والوں کے لیے…
ہندوستان کے ڈپٹی سالیسٹر جنرل ایس بی پانڈے نے عدالت کو بتایا ہے کہ وزارت…
رپورٹ کے مطابق بعض شعبے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور طویل مدتی…
محسن نقوی نے کہا کہ میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ بیلاروس کے…
سبوراتھینم نے کہا کہ "فائبر آپٹک ٹیکنیشن طبقہ میں روزگار کی سالانہ ترقی کی شرح…