-بھارت ایکسپریس
کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا آج اختتام پذیرہوگئی۔ اس دوران کانگریس کی جانب سے سری نگر کے شیرکشمیراسٹیڈیم میں عوامی جلسہ منعقد کیا گیا۔ اس جلسے میں راہل گاندھی نے کہا، میں نے گاندھی سے سیکھا ہے کہ جینا ہے، تو ڈرے بغیرجینا ہے۔ میں چاردن تک یہاں ایسے پیدل چلا۔ میں نے بس یہی سوچا کہ بدل دو میری ٹی شرٹ کا رنگ، لال کردو۔ لیکن جو میں نے سوچا تھا، وہی ہوا۔ جموں وکشمیرکے لوگوں نے مجھے ہینڈ گرینیڈ نہیں دیا، بلکہ مجھے پیار دیا۔ دل کھول کر مجھے پیار دیا۔ اپنا مانا۔ پیار سے آنسوؤں سے میرا استقبال کیا۔
راہل گاندھی نے کہا کہ چار دن میں نے جیسے پیدل کشمیر کی یاترا کی، بی جے پی کا کوئی لیڈرایسی یاترا نہیں کرسکتا۔ ایسا اس لئے نہیں کیونکہ جموں وکشمیرکے لوگ انہیں چلنے نہیں دیں گے، بلکہ ایسا اس لئے کیونکہ بی جے پی کے لوگ ڈرتے ہیں۔
میں روز10-8 کلو میٹر دوڑتا ہوں: راہل گاندھی
راہل گاندھی نے کہا، وہ کافی سالوں سے روز10-8 کلو میٹر دوڑتے ہیں۔ ایسے میں انہیں لگتا تھا کہ کنیا کماری سے کشمیر تک چلنے میں اتنی مشکل نہیں ہوگی۔ یہ یاترا آسان رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑا سا تکبرآگیا تھا۔ راہل نے کہا، میرے بچپن میں فٹبال کے دوران گھٹنے میں چوٹ لگی تھی۔ کنیا کماری سے یاترا شروع ہوئی، تو گھٹنے میں درد ہونے لگا، لیکن بعد میں کشمیر آتے آتے یہ درد ختم ہوگیا۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے مزید کہا، مجھ سے پہلے پرینکا گاندھی یہاں اسٹیج پرآئی تھیں۔ انہوں نے ایسی بات کہی کہ میری آنکھ میں آنسوآگئے۔ دراصل، پرینکا گاندھی نے عوامی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر پہنچنے سے پہلے راہل گاندھی نے انہیں اورسونیا گاندھی کو فون کرکے بتایا تھا کہ انہیں عجیب محسوس ہو رہا ہے۔ انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنے گھر جا رہے ہیں۔ جب وہ کشمیر کے لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔ سینے میں درد ہوتا ہے۔
راہل نے بتایا- کیا ہے کشمیریت؟
راہل گاندھی نے کہا، میں سرکاری گھروں میں رہا، میرے پاس کبھی گھرنہیں تھا۔ میرے لئے گھرایک اسٹرکچرنہیں ہے۔ جینے کا طریقہ ہے۔ جس چیزکو آپ کشمیریت کہتے ہیں، اسے میں گھر مانتا ہوں۔ یہ کشمیریت کیا ہے؟ یہ شیوجی کی سوچ ہے، ایک طرف اگرگہرائی میں جائیں گے تو صفرکہا جاسکتا ہے۔ اپنے آپ پراپنے غرور پر، اپنے نظریات پر حملے کرنا۔ دوسری طرف اسلام میں فنا کہا جاتا ہے۔ سوچ وہی ہے۔ اسلام میں فنا کا مطلب اپنے اوپرحملہ، اپنی سوچ پر حملہ، جو ہم قلعہ بنا دیتے ہیں، میں یہ ہوں۔ میرے پاس یہ ہے۔ اسی قلعہ پر حملہ کرنا صفر ہے۔ وہ فنا ہے۔ اس سرزمین پردو نظریات ہیں، ان کے درمیان سالوں سے رشتہ ہے۔ اسے ہم کشمیریت کہتے ہیں۔
-بھارت ایکسپریس
منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان 1947 میں تقسیم ہند…
آئی وی ایل پی فیض یافتہ پرسنا گیٹو پناہ گاہوں، ہاٹ لائنز اور وکالت کے…
مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کے ہندی ترجمہ کے…
کانگریس صدر ملیکا ارجن کھڑگے نے جمعہ کو وزیراعظم نریندرمودی کوخط لکھ کرسابق وزیراعظم منموہن…
سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا مجسمہ بنائے جانے کے تنازعہ کے درمیان مرکزی حکومت…
سونیا گاندھی منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دوران کانگریس کی صدر تھیں۔ انہوں نے…