Jamaat-e-Islami Hind PC on Important Topics: منی پور کے صورتحال پر جماعت اسلامی ہند کا اظہار تشویش، کہا- ایک اسٹیٹ دو ملکوں میں تقسیم ہوگیا

منی پورفرقہ وارانہ تشدد سے صرف منی پور نہیں، نارتھ ایسٹ نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے انتہائی تشویشناک ہے اور اس نے پوری دنیا میں ہندوستان کو بدنام کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک اسٹیٹ میں دو ملک تقسیم ہوگئے ہیں۔ ایک طرف میتئی اور دوسری طرف کوکیز ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں نے دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے، جو بہت خوش آئند ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر پروفیسرسلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی اورعبد الحلیم  پھندریمیم نے کیا۔ میڈیا نیشنل سکریٹری کے کے سہیل اور’انڈیا ٹومارو’ کے چیف ایڈیٹرسید خلیق احمد نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کے وفد نے وہاں جن حقائق کی معلومات حاصل کی، اس پرتفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ منی پور میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 65 ہزار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں 14 ہزار بچے ہیں۔ ان  میں سے اکثرعارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ تشدد کے دوران 198 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئی۔ جہاں تک معاشی نقصان کی بات ہے توفی الوقت اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وفد نے محسوس کیا کہ ریاست کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ وادی کے لوگ پہاڑی علاقوں میں نہیں جاسکتے اور نہ ہی پہاڑی لوگ وادی میں۔ فسادیوں نے مکانات اور کاروباری اداروں کو نسلی بنیاد پر کہیں جزوی تو کہیں مکمل طور پر نقصان پہنچایا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ملک کے کچھ اہم موضوعات پرگفتگو کی گئی۔ جن میں منی پورکا غیر حل شدہ بحران، نئے فوجداری قوانین، نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل، تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا، نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس اورہماچل ماحولیاتی تباہی جیسے موضوعات شامل تھے۔

نئے فوجداری قوانین

حکومت نے لوک سبھا میں تین نئے بل پیش کئے ہیں جن کا مقصد فوجداری نظامِ عدل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ تینوں بل آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ کی جگہ لیں گے۔ ان بلوں کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ یہ ترامیم نظامِ عدل اور عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عوامی آراء اور ان کے رجحانات کو معلوم کئے بغیر جلد بازی میں کی گئی اس طرح کی تبدیلیوں سے قانونی فریم ورک میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، قانونی پیشہ ور افراد اور عوام کے لئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس بل میں ہجومی تشدد کے جرم پر سزائے موت کے علاوہ 7 سال قید یاعمر قید متعارف کرائی گئی ہے۔ اس نئے قوانین سے جڑے کچھ مخصوص خدشات ہیں:

جماعت اسلامی ہند کا نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل پر تشویش

’ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا  پروٹیکشن بل  2023‘، ایک ایسا بل ہے جس سے حکومت  کے ذریعہ کی جانے والی نگرانی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس بل کے بموجب شہریوں کے ڈیٹا کی رازداری سے سمجھوتہ کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ بل کمپنیوں کو کچھ صارفین کا ڈیٹا بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو اب یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ فرموں سے افراد کے ذاتی ڈیٹا  ان کی رضامندی کے بغیر حاصل کرے اور مرکزی حکومت  کے ذریعہ مقرر کردہ بورڈ  (ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ)  کے مشورے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہریوں کے پوسٹ کردہ مواد کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کرے۔جبکہ ایسا کرنا ملک کے باشندوں کی شہری آزادی کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری جمہوریت کمزور ہوگی۔  یہ بل حکومتی اداروں کو تحقیقات اور ریاستی تحفظ کے نام پر ”ڈیٹا پروٹیکشن پروویژن آف لاء“ سے مستثنیٰ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔  استثنیٰ کئے جانے کا یہ دائرہ  ’آر ٹی ای‘  کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنے گا  جبکہ ”آر ٹی ای“  قانون کے تحت شہریوں کو سرکاری افسران سے ڈیٹا حاصل کرنے کا پورا حق دیا گیا ہے۔

ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا

جماعت اسلامی ہند ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء شدید قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں جس کی حالیہ مثال اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں نیہا پبلک اسکول میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک مسلمان بچے کو ہم جماعت طلباء سے پٹوایا گیا۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں بیٹھے ہوئے استاد نے دیگر مسلم طلباء کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اب سے پہلے اسلامو فوبیا کا یہ زہر شمالی ہند تک محدود تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جنوبی ہندوستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ جن ریاستوں میں حجاب پر پابندی نہیں ہے، وہاں بھی مسلم طالبات کو امتحانات کے دوران حجاب پہننے سے روکا جارہا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک 27 سالہ مسلم لڑکی کو ہندی چیپٹر کا امتحان دینے سے پہلے حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ گزشتہ سال کرناٹک میں حکومت کے زیر انتظام پری یونیورسٹی کالجوں نے اسکول یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔  اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مسلم طالبات اپنے علاقے میں پرائیویٹ کالج نہ ہونے یا ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب تعلیم ترک کردیں۔  اسی طرح دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے کلاس روم میں خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کئے۔  جماعت اسلامی ہند کو لگتا ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کا ماحول اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہوچکا ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پرفائز افراد کے ذریعہ اپنائی گئی خاموشی کی پالیسی، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کی کارروائیوں کے خلاف بولنے سے بچنے کا رویہ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر عدم تحمل اور پولرائزیشن کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔  جماعت چاہتی ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں،  اسکولوں اور کالجوں کے کیمپس میں تیزی سے پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو ایک سماجی برائی مان کر اس کے خاتمے کے لئے مناسب قوانین تیار کرے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اکثریتی برادری میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی کوششیں کریں،  اس سلسلے میں میڈیا  اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس

جماعت اسلامی ہند ستمبر 2023 میں نئی دہلی میں جی 20 کے اجلاس میں شرکت کرنے والے وفود کا خیر مقدم کرتی ہے۔  اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا ہم سب ہندوستانیوں کے لئے شان اورفخر کی بات ہے۔ اس سربراہی اجلاس کے’لوگو‘  میں ہندوستانی ثقافت کا مشہور نعرہ ”واسو دھیوا کٹمبکم“ کے علاوہ  ’ایک زمین، ’ایک  خاندان‘،  ’ایک مستقبل“ کی درجہ بندی، کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔  جی 20 کی میزبانی کرنے سے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرو رسوخ، آب و ہوا کی کارروائی کے لئے اس کی مضبوط وکالت، اس کی اسٹریٹجک اہمیت، عالمی صحت کی دیکھ بھال میں اس کا کردار اور گلوبل ساؤتھ کی آواز بننے کو نمایاں کرتا ہے۔ تاہم کچھ اہم  انڈیکس جو عالمی سطح پر ہماری سماجی و اقتصادی درجہ بندی کا تعین کرتے ہیں، بہت خراب ہے۔ لہٰذا ہمیں مختلف انڈیکس جیسے ڈیموکریسی انڈیکس، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس، گلوبل ہنگر انڈیکس، گلوبل فوڈ سیکورٹی انڈیکس، ہیومن فریڈم انڈیکس، ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس، کرپشن پرسیپشن انڈیکس، ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس، وغیرہ میں اپنی رینکنگ کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ حکومت ہماری دولت میں عدم مساوات کو کم کرنے، مذہبی اقلیتوں کے تحفظ و صحت عامہ اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کرے۔

  بھارت ایکسپریس۔

Nisar Ahmad

Recent Posts

Delhi Riots 2020:دہلی فسادات سازش کیس: ککڑڈوما عدالت نے ملزمین کو کیا خبردار ، کہا- غیر ضروری تاخیر نا مناسب

ککڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپئی نے یہ بھی کہا کہ ملزم کی…

3 hours ago

Haryana Election 2024: شام 5 بجے تک ہریانہ میں 61 فیصد ہوئی ووٹنگ، جانئے کس ضلع میں ہوئی سب سے زیادہ ووٹنگ

ہریانہ میں پہلی بار 5 بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس، بی جے پی، جننائک جنتا پارٹی…

6 hours ago

Adani University Celebrates First Convocation: اڈانی یونیورسٹی نے پہلا کانووکیشن کا منایا جشن ، اختراع اور سماجی سرگرمیوں پر زور

اڈانی یونیورسٹی، احمد آباد نے اپنے گریجویٹس کی کامیابیوں کا جشن مناتے ہوئے اپنا پہلا…

6 hours ago