مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے سرکاری افسران کو عدالتوں میں طلب کرنے یا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے ایک معیاری طریقہ کار وضع کرنے کی درخواست کی ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنی جانب سے ایک معیاری آپریٹنگ پروسیجر یعنی ایس او پی بھی پیش کیا ہے۔ یہ ایس او پی مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے متعلق معاملات کے لیے ہے۔ مرکز نے مشورہ دیا ہے کہ جب یہ بہت ضروری ہو، تبھی عدالت کسی افسر کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کو کہے۔ اس دوران اس کے لباس پر غیر ضروری تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔مرکزی حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ کسی افسر کے خلاف توہین کا مقدمہ ان احکامات کی عدم تعمیل پر ہونا چاہیے، جن پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن تھا۔ توہین عدالت کیس کی سماعت وہ جج نہ کرے جس کے حکم کی عدم تعمیل کی وجہ سے یہ کارروائی شروع کی گئی ہے۔
ضرورت کیوں پیش آئی؟
چند ماہ قبل الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے دو سینئر آئی اے ایس افسران کو اپنے ایک حکم پر عمل نہ کرنے پر حراست میں بھیج دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے یہ سخت حکم ریٹائرڈ ججوں کے ریٹائرمنٹ فوائد سے متعلق حکم کی تعمیل نہ کرنے کی وجہ سے دیا تھا۔ اس کے بعد ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسے کیسز کے لیے کوئی معیاری طریقہ کار ہونا چاہیے۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ جج عدالت میں پیش ہونے والے افسران کے ملبوسات پر تبصرہ کرتے ہیں۔ حکومت نے کہا ہے کہ سرکاری اہلکار وکیل نہیں ہیں، جن کا عدالت میں پیشی کے لیے ڈریس کوڈ مقرر ہے۔ اگر کوئی سرکاری اہلکار اپنے عہدے کے مطابق باوقار لباس پہن کر عدالت میں آیا ہے تو اس پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔
مرکز کی دیگر تجاویز کیا ہیں؟
مرکزی حکومت نے مشورہ دیا ہے کہ اگر عدالت ان موضوعات پر حکم دیتی ہے جو ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں تو کسی بھی افسر کے خلاف توہین کی کارروائی نہیں کی جانی چاہئے۔ افسر ایسے حکم کی تعمیل نہیں کر سکتا۔ توہین کی کارروائی کا استعمال صرف کسی خاص حکم کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ توہین عدالت کے مقدمات میں سزا کے حکم پر عمل درآمد اس وقت تک روک دیا جائے جب تک کہ اعلیٰ عدالت کی طرف سے اپیل کی سماعت نہ ہو جائے۔عدالت میں پیش کیے گئے ایس او پی میں مرکز نے مشورہ دیا ہے کہ اگر عدالت پالیسی معاملات پر کوئی حکم دیتی ہے تو حکومت کو اس کی تعمیل کے لیے مناسب وقت دیا جانا چاہیے۔ حکومت نے کہا ہے کہ اس طرح کے حکم پر عمل درآمد کا عمل طویل ہوتاہے۔ اسے کئی درجوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے حکومت کی جانب سے وقت مانگی گئی درخواست پر غور کیا جائے۔
اس ایس او پی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر عدالت کسی معاملے پر کمیٹی بنانا چاہتی ہے تو صرف یہ بتائے کہ کمیٹی میں کتنے ممبران ہوں گے، کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران کی اہلیت کیا ہو گی۔ عدالت اپنی طرف سے ارکان کے ناموں کا فیصلہ نہ کرے۔ نام کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری حکومت کو دی جائے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے پیر 21 اگست کو اس معاملے کی سماعت کرنے کا کہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ معاملہ پورے ملک سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے تمام ہائی کورٹس سے بھی تجاویز لی جائیں گی۔
بھارت ایکسپریس۔
طالبان نے کئی سخت قوانین نافذ کیے ہیں اور سو سے زائد ایسے احکام منظور…
اداکارہ نینتارہ نے سوشل میڈیا پر لکھے گئے خط میں انکشاف کیا ہے کہ اداکار…
بہوجن وکاس اگھاڑی کے ایم ایل اے کشتیج ٹھاکر نے ونود تاوڑے پر لوگوں میں…
نارائن رانے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب مہاراشٹر حکومت الیکشن کے…
تفتیش کے دوران گل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بابا صدیقی کے…
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں کا استعمال احتیاط سے منتخب تحائف…