العربیہ کے مطابق، پیرکے روزچین کے اعلیٰ سفارت کاروانگ یی سے ملاقات کرنے والے عہدیداروں میں سعودی عرب، اردن، مصر، انڈونیشیا، فلسطین اوراسلامی تعاون تنظیم سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ اوراعلی عہدیدارشامل ہیں۔ اس دوران سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ ’ہم یہاں سے ایک واضح پیغام بھیجنے آئے ہیں کہ ہمیں فوری طورپرلڑائی اوراموات کو روکنا ہوگا، ہمیں فوری طورپرغزہ کو انسانی امداد فراہم کرنی ہوگی۔‘
رواں ماہ (12 نومبر) ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کا ایک غیرمعمولی مشرکہ اجلاس ہوا، جس میں بین الاقوامی فوجداری عدالت پر بھی زوردیا گیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں ’اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے جنگی اورانسانیت کے خلاف جرائم‘ کی تحقیقات کرے۔ سعودی عرب نے غزہ میں لڑائی کے خاتمے کے لئے امریکہ اوراسرائیل پردباؤ ڈالنے کی کوشش کی اوراس پیغام کو تقویت دینے کے لئے عرب اورمسلم رہنماؤں کوجمع کیا۔ حالانکہ عرب ممالک اوراوآئی سی میں شامل تمام ممالک کے رویے پرسوال بھی اٹھتا رہا ہے کہ وہ عملی اقدامات کرنے میں کافی پیچھے نظرآرہے ہیں، لیکن ان ممالک آج یہ اہم قدم اٹھایا ہے، جس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 7 اکتوبرکو حماس کی جانب سے اسرائیل میں ہونے والے حملے میں تقریباً 240 افراد کو قیدی بنایا گیا تھا اور1200 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سے ہی غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے جاری ہیں۔ جبکہ غزہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے اب تک اسرائیلی بمباری میں کم ازکم 13 ہزارفلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں، جن کم از کم 5500 بچے بھی شامل ہیں۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ بیجنگ ’عرب اورمسلم ممالک کا اچھا دوست اوربھائی ہے اوراس نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائزحقوق اور مفادات کی بحالی کے منصفانہ مقصد کی بھرپور حمایت کی ہے۔‘ اسرائیل کے غزہ پرحملوں کے بعد سے چین کی وزارت خارجہ نے حماس کی مذمت کرنے سے گریزکیا ہے اور اس کی بجائے کشیدگی کم کرنے اوراسرائیل اور فلسطین پرزوردیا ہے کہ وہ آزاد فلسطین کے لئے’دو ریاستی حل‘ کی طرف بڑھیں۔ چینی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ چین ’غزہ میں لڑائی کو جلد ازجلد ختم کرنے، انسانی بحران کو کم کرنے اور فلسطین کے مسئلے کے جلد، جامع، منصفانہ اوردیرپا حل کے لئے کام کرے گا۔‘ مشرق وسطیٰ کے لئے چین کے خصوصی ایلچی ژائی جون نے گذشتہ سال اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ عرب لیگ اور یورپی یونین کے حکام سے بھی رابطہ کیا تھا تاکہ اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل اورفلسطین کو تسلیم کرنے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔