بین الاقوامی

Coocking up a Successful Future: طبّاخی میں روشن مستقبل

تحریر: میگن میک ڈریو

بھوپال میں مقیم ملیکا آنند کے کھانا پکانے کا سفر  کمسنی میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے اپنی والدہ، دادی اور خالاؤں , پھوپھیوں , چچیوں اور ممانیوں کو باورچی خانے میں لذیذ کھانے بناتے ہوئے دیکھا۔ چونکہ آنند کے ارد گرد سب شاندارطبّاخ  تھے لہٰذا ان کے اندربھی کھانا پکانے کا شوق فطری طور پر پروان چڑھااور انہوں نے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

آنند کو اپنے کریئر کے بارے میں یقین تھا کہ وہ فنِ طبّاخی  میں  ہی پیش قدمی کرنا چاہتی ہیں ۔ اس لیے انہوں نے کالج کی تلاش محض نویں جماعت میں شروع کر دی ۔ وہ انکشاف کرتی ہیں ’’ایک دن اچانک مجھے ’کلنری انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ‘ (سی آئی اے) کی ویب سائٹ نظر آئی۔ اور بس اس پر درج ہر کورس میرے دل کو بھا گیا۔ اسی دن سے میں نے اس انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے کا ہدف بنا لیا تاکہ میں بھی اپنا ایک کامیاب پیسٹری شیف بننے  کا سفر شروع کرسکوں جس میں میرے ہم خیال میرے شریک سفر ہوں۔‘‘

نیو یارک میں واقع سی آئی اے کا  شمار فنِ طبّاخی  کے دنیا کے چند اعلیٰ ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ آنند نے اپنے گھر والوں کےساتھ سی آئی اے کا دورہ کیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ ان کو یہی کورس کرنا ہے حالانکہ انہوں نے ہندوستان میں پہلے سے ہی فنِ طبّاخی کے ایک کورس میں داخلہ لے رکھا تھا۔

درست سفر کا انتخاب

سی آئی اے میں مختلف النوع پروگرام دستیاب ہیں جو کہ فنِ طبّاخی اور تدریسی کلاسوں پر مبنی ہیں۔ فنِ طبّاخی کی کلاسوں میں بریڈ، کیک اور چاکلیٹ بنانا، نیز ریستوراں خدمات کی بنیادی چیزیں، شراب سازی اور پیئرنگ (مختلف کھانوں کے ساتھ جداگانہ مشروبات خاص کر شراب کی آمیزش) سکھائی جاتی ہے۔ جبکہ تدریسی طور پر کورسس ریاضی، غذائیت اور محفوظ کھانا پیش کرنے میں سرٹیفیکیشن شامل ہیں۔

آنند اکثر علی الصبح چاربجے اٹھ جایا کرتی تھیں تاکہ کیمپس میں سات بجے ناشتہ پروسنے کے لیےتیار رہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’لوگوں کو لگتا ہے کہ اتنا سویرے اٹھنا ایک عجب دیوانگی ہے لیکن حقیقت میں مجھے صبح صبح اٹھ کر سات بجے گاہکوں  کے لیے تیاری کرنے میں بڑا لطف آتا تھا۔‘‘ ماسٹر شیف سے سیکھنے اور اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ تربیت پانے(جن کی فنِ طبّاخی میں دلچسپی تھی) سے آنند کے اندرایسے ہنر پیدا ہوئےاور  رابطے بھی قائم ہوئے جن کی مدد سے وہ اپنے کریئر کو بلندیوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں۔

اس پروگرم کی سب سے خاص بات یہ تھی  کہ اس میں تین ماہ کی ایکسٹرن شپ (کسی دفتر ،کمپنی یا کارخانے کا کوئی  عارضی تربیتی پروگرام، خاص کر ایسا پروگرام جو طلبہ کو ان کے کورس کے حصے کے طور پر کرنا ہوتا ہے )بھی شامل تھی۔ ایکسٹرن شپ کے دوران زیرِ تربیت طلبہ نے طعام اور مشروبات کی صنعت میں عملی طور پر شرکت کی۔ طلبہ کو اجازت تھی کہ وہ پورے امریکہ میں کہیں بھی کام کرسکتے ہیں۔ آنند نے ریاست فلوریڈا کے میامی علاقہ میں واقع ایک سیر گاہ کا انتخاب کیا۔ وہ اسے اپنے تدریسی کریئرکا ایک سب سے زیادہ یادگار تجربہ قرار دیتی ہیں۔

فنِ طبّاخی  کے شوق کو پروان چڑھانا

امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی صرف کلاس روم تک ہی محدود نہیں رہتی ہے بلکہ اس کے باہر بھی طلبہ کو آپس میں ملنے اور اپنے تجربات شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سی آئی اے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران آنند نے ’ کیری اوکے‘ اور ’بنگو نائٹ ‘ میں بھی شرکت کی اور نیو یارک سٹی تو ان کا اکثر جانا ہوتا تھا۔ آنند بتاتی ہیں ’’کلاس روم یا بیک شاپ تک ہی ہماری پڑھائی محدود نہیں تھی۔ متنوع بین الاقوامی طلبہ سے میں نے ان کی ثقافتوں کے بارے میں بہت  کچھ جانا۔ جبکہ اپنی ثقافت کے بارے میں بتانے سے الگ ہی خوشی ملتی تھی۔‘‘ انہوں نے امریکہ میں بھارت کا مشہور گاجر کا حلوہ بناکر کھلایاجوسب کو بہت پسند آیا۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے آنند کو سی آئی اے میں کافی اطمینان ملا۔

۲۰۲۰ء میں سی آئی اے سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آنندہندوستان  واپس آگئیں۔مگر چونکہ نیو یارک سٹی میں واقع مشیلین ریستوراں میں ان کوملازمت لگ گئی تھی اس لیے ان کا ارادہ فوراً واپس جانے کا تھا۔ پھر  کووِڈ ۔۱۹عالمی وباء نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا۔ لہٰذا انہوں نے نیو یارک سٹی جانے کا اپنا ارادہ ترک کردیا اور بھوپال میں اپنی ذاتی  پیسٹری کی کمپنی ’’بیکڈ بائی ملیکا‘‘ شروع کردی۔

اپنی شناخت قائم کرنا

امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ اور خاص طور پر غیر اسٹیم طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہو سکتا ہے۔ آنند کہتی ہیں ’’میں ہر بین الاقوامی طالب علم، جس سے میری گفتگو ہوتی ہے، کو مشورہ دیتی ہوں کہ اگرآپ کے پاس امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا جنون اور وسائل ہیں تو آپ ضرورحاصل کریں۔‘‘

آنند کے لیے اپنا ذاتی  پیسٹری اور کیک کا کاروبار چلانا کسی خواب سے کم نہیں ہے اور یہ سب ممکن ہوا امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سبب جہاں ان کا تجربہ ’’کامل سے کم نہیں تھا۔‘‘

میگن میک ڈریو سانتا کروز میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور ہارٹنیل کالج میں عمرانیات کی پروفیسر ہیں۔ وہ کیلیفورنیا کے مونٹیرے میں مقیم ہیں۔

بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

Bharat Express

Recent Posts

KK Menon on cinema and entertainment: سنیما اور انٹرٹینمنٹ ​​پر کے کے مینن نے کہا، ’یہ بزنس آف ایموشن ہے‘

اداکار کے کے مینن آنے والی اسٹریمنگ سیریز ’سیٹاڈیل: ہنی بنی‘ میں نظر آئیں گے،…

2 hours ago

India vs New Zealand: سرفراز خان کا بلے بازی آرڈر بدلنے پریہ عظیم کھلاڑی ناراض، گمبھیر-روہت پرلگائے الزام

نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹسٹ میچ کی پہلی اننگ میں سرفراز خان کچھ خاص…

3 hours ago

کانگریس پرالزام حقیقت سے دور… مفت اسکیم سے متعلق وزیراعظم مودی کے طنزپرپرینکا گاندھی کا پلٹ وار

کانگریس صدر ملیکا ارجن کھڑگے نے کرناٹک میں وزیراعلیٰ سدارمیا اورنائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیوکمارکے…

4 hours ago